Maktaba Wahhabi

64 - 95
4. عمیر بن اُمیہ کی بہن مشرک تھی اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں سب و شتم کر کے عمیر کو اذیت پہنچانے کو ایک وتیرہ بنا رکھا تھا۔ اس کے اس رویے سے تنگ آ کر ایک دن عمیر نے اسے قتل کر دیا…… نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صورتِ حال معلوم ہونے کے بعد اس عورت کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا۔ [1] اگر ذمی کے سب و شتم پر تعزیر میں اصل سزا قتل کی نہ ہوتی تو احتمال تھا کہ مذکورہ بالا دو واقعات میں قاتلین سے باز پرس ہوتی اور ان سے کہا جاتا کہ تم کچھ اور صبر کرتے یا کچھ ہلکی سزا دیتے شاید کہ اُن کو توفیق ہوتی اور وہ مسلمان ہو جاتیں اور تمہارا ان کو قتل کرنا حکمت ومصلحت کے خلاف تھا۔لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا بلکہ ان کے اقدام قتل کو روا رکھا تو اس سے معلوم ہواکہ ان کی سزا قتل ہی بنتی تھی جو کہ دی گئی۔ 5. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک راہب کو لایا گیا اور اُنہیں بتایا گیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں اس کی زبان سے سن لیتا تو اسے قتل کر دیتا۔[2] مذکورہ بالا واقعات سے دو باتیں سامنے آئیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سبّ و شتم کرنے والے ذمی کی تعزیر میں اصل قتل ہے۔ اگر کسی نے اس کو موت سے کمتر سزا دی تو چونکہ قتل بھی تعزیر کے طور پر ہے، اس لیے جب ایک دفعہ کمتر تعزیر کر دی گئی تو اب دوبارہ اس کو تعزیر نہ کریں گے۔ تعزیر کا اجرا جیسے حکومت کر سکتی ہے، اسی طرح کوئی دوسرا بھی کرے تو جائز ہے۔ تعزیر کون کر سکتا ہے ؟ یاد رہے کہ عمار خان صاحب کا موقف ہے کہ تعزیر صرف حکومت کر سکتی ہے۔عمار خان صاحب نے ہماری ذکر کردہ دوسری بات کے برعکس اپنی کتاب میں ایک پورا باب باندھا ہے اور اس کا عنوان رکھا ہے: سزا کے نفاذ کا اختیار [3] عمار خان اس میں مولانا سرفراز خان رحمہ اللہ کی کتاب ذخیرة الجنان کا یہ اقتباس نقل کیا:
Flag Counter