1.سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مستند روایات سے ثابت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی سزا موت بیان فرمائی۔ تاہم ان کے فیصلوں سے واضح ہے کہ وہ اسے حدّ نہیں سمجھتے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بعض خواتین نے خوشی کے اظہار کے لیے دف بجائے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صرف اُن کے ہاتھ کٹوا دیئے۔ اسی طرح ان کے عہد میں مہاجر بن ابی اُمیہ کے سامنے ایک عورت کو پیش کیا گیا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہجویہ اشعار گائے تھے۔ اُنہوں نے اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا اور ایک دانت اُکھاڑ دیا۔ سیدنا ابوبکر کو خبر ملی تو انہوں نے کہاکہ اگر تم یہ فیصلہ نافذ نہ کر چکے ہوتے تو میں تمہیں اس عورت کو قتل کرنے کا حکم دیتا کیونکہ انبیا کی توہین کی سزا عام سزاؤں کی طرح نہیں ہے۔ [1] 2. امام موسیٰ کاظم روایت کرتے ہیں کہ مدینہ کے عامل زیاد بن عبید اللہ کے دور میں اس نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا اور اس نے مدینہ کے فقہا سے رائے طلب کی تو… امام جعفر صادق نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے مابین فرق ہونا چاہئے چنانچہ ان کی رائے کے مطابق مجرم کو قتل کر دیا گیا۔ [2] مذکورہ بالا دونوں حوالوں میں دلیل یہ ضابطہ ہے کہ توہین رسالت کی سزا توہین صحابہ سے زیادہ ہونی چاہیے۔ توہین صحابہ کی سزا قتل سے کمتر ہے تو توہین رسالت کی سزا قتل ہونی چاہیے۔ 3. ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کی لونڈی جو اس کے بچوں کی ماں بھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتی اور آپ کی توہین کیا کرتی تھی اور اپنے مالک کے منع کرنے اور ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود اس سے باز نہیں آتی تھی۔ ایک دن اسی بات پر اس نے اشتعال میں آ کر اسے قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے اس کو بلا کر پوچھ گچھ کی اور پھر اس کی وضاحت سننے کے بعد فرمایا کہ «ألا اَشهدوا أن دمها هدر» یعنی گواہ رہو کہ اس عورت کا خون رائیگاں ہے۔ [3] |