لیکن یہ معیار بھی مبہم ہے کیونکہ دو مرتبہ سے روش تو نہیں بنتی، اور دو سے اوپر جتنے بھی عدد ہیں وہ بلا مزاحم نہیں ہیں۔ کوئی تین مرتبہ سے روش کہے گا اور کوئی چھ مرتبہ پر بھی روش کے اطلاق سے پس و پیش کرے گا۔عمار خان صاحب تو اس پر بھی خوش ہیں کہ قانون میں ابہام پیدا کر دیا جائے جس سے وہ بے اثر ہو کر رہ جائے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کوئی ذمی از خود لوگوں کے سامنے اعلانیہ توہین رسالت کرے تو یہ ایک دفعہ کرنا ہی اس کی بڑی سرکشی ہے جس کی اجازت معاہدہ ذمہ میں ذمی کو حاصل نہیں۔ تمردّ وسرکشی کے لیے ایک دفعہ کی توہین رسالت کافی ہے، بار بار کرنے کی گنجائش کیوں رکھی جائے۔ اس صورت میں عادت ہونے یا بہ تکرار کرنے کا محل اعلانیہ توہین نہیں بلکہ خفیہ توہین ہے لیکن انتظام میں کچھ کوتاہی کی بنا پر ذمی کے مقام کے قریب سے گزرنے والے مسلمان اس کو سن لیتے ہیں۔ چونکہ ذمی اس کو خفیہ کرنا چاہتا تھا اس لیے اس میں سرکشی و تمرد کی کمی ہے، اس لیے پہلی دفعہ میں اس کو قتل نہ کیا جائے گا بلکہ اس کو تنبیہ کی جائے گی کہ آئندہ نہ کرنا ورنہ تم قتل کر دیے جاؤ گے۔ اس تنبیہ کے بعد بھی پھر دوبارہ اس ناقص خفیہ طریقے سے توہین رسالت کرے تو اس کی سرکشی ثابت ہونے میں کچھ کمی نہیں رہی اور وہ سزائے قتل کا مستحق بن گیا۔ دو دفعہ کے ہونے سے تکرار ثابت ہوتی ہے: ولا یحد عند الإمام إلا إذا تکرر فیقتل علىٰ المفتی به... قال البیری والظاهر أنه یقتل في المرة الثانیة لصدق التکرار علیه[1] ’’پاخانے کی جگہ میں وطی کرنے کے مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس پر حد نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ دوبارہ ایسا کرے تو مفتیٰ بہ قول کے مطابق اس کو قتل کیا جائے گا ....علامہ بیری کہتے ہیں کہ ظاہر بات یہ ہے کہ دوسری مرتبہ میں اس کو قتل کیا جائے گا کیونکہ دو دفعہ پر تکرار کا معنی صادق آتا ہے۔‘‘ ذمّی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سبّ و شتم کرے تو اس کی تعزیر میں اصل قتل ہے! اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں جو عمار خان صاحب ہی کے ذکر کردہ ہیں: |