Maktaba Wahhabi

61 - 95
ہو اور عادت ہو جائے تو اس کو قتل کرنا چاہیے… پس لفظِ حدیث سے معلوم ہوا کہ جب تک مکرّر نہ ہو تو قتل نہ کرنا چاہیے۔ سو امام صاحب بھی اس کے مخالف نہیں کہتے...معلوم ہوا کہ امام صاحب کا قول مطابق حدیث کے ہے اور حدیث میں عادت اور کثرت کی وجہ سے قتل ہے سو اس کا امام صاحب انکار نہیں کرتے۔ امام صاحب غیر معتاد (جس کی عادت نہ ہو) کے واسطے یہ حکم بیان کرتے ہیں کہ قتل نہ کیا جائے… چنانچہ ردّ المحتار میں ہے کہ اُصول حنفیہ میں سے یہ امر ہے کہ جس چیز میں حنفیہ کے نزدیک قتل مقرر نہیں، جس وقت وہ فعل مکرّر ہو پس چاہئے امام کو کہ اس کے کرنے والے کو قتل کرے۔‘‘[1] ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام میں کچھ اور بھی دو فروگذاشتیں ہیں: 1.ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کے بارے میں کہا کہ ان کے نزدیک سبّ و شتم کے اظہار و اعلان پر قتل سے خالی تعزیر ہے حالانکہ امام محمد رحمہ اللہ کے بارے میں گزرا ہے کہ وہ ایک مرتبہ اعلانیہ سبّ و شتم کی صورت میں تعزیر بالقتل کے قائل ہیں۔ 2. ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا کہ بہت سے حنفیہ نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جو ذمی بار بار توہین رسالت کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا، ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کا کوئی حوالہ نقل نہیں کیا۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے یہ الفاظ ہیں: من ِأکثر من سبّ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی جو سب و شتم بہت زیادہ کرے یا بہت مرتبہ کرے، ابن تیمیہ نے اس کا بھی حوالہ نہیں دیا۔ بہت مرتبہ یا بار بار کرنے سے کوئی خاص عدد مراد ہے یا نہیں؟ اگر کوئی خاص عدد مراد ہے تو وہ کونسا ہے؟ اور اگر کوئی خاص عدد مراد نہیں ہے تو پھر یہ کون طے کرے گا کہ اکثار پایا گیا یا نہیں؟ اگرچہ اس کو حاکم کی رائے پر چھوڑا جاتا ہے لیکن جب حاکم میں اس کو جانچنے کی صلاحیت نہ ہو یا وہ متعین قانون کی شکل میں اس کو نافذ کرے یا پارلیمنٹ قابل تعزیر توہین رسالت کی تعریف کرے اور قانون بنائے تو وہ کس عدد پر بنا کرے گی؟ عمار خان صاحب اس کا معیار تو یہ بتاتے ہیں: ’’جب کہ مجرم سبّ و شتم کا اعلانیہ اظہار کرے اور اس کو ایک روش کے طور پر اختیار کر لے۔‘‘
Flag Counter