7. امام محمد رحمہ اللہ نے بھی اعلانیہ کرنے کی شرط ذکر کی۔ مذکورہ حوالوں سے معلوم ہوا کہ تعزیر کے طور پر قتل کرنے کے لیے ذمی سے توہین رسالت صرف ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے یعنی یا تو اعلانیہ کی ہو یا خفیہ کی ہو تو ایک دفعہ کی تکرار کے ساتھ کی ہو۔ غلطی کہاں ہوئی اور ابن عابدین کو مغالطہ کیا لگا؟ یہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے اپنی کتاب الصارم المسلول میں حنفیہ کا موقف بیان کرتے ہوئے اشارةً دونوں شرطوں کو جمع کر دیا اور اُن سے ابن عابدین رحمہ اللہ نے اس کو لے کر صراحت سے کئی جگہوں پر ذکر کیا جس سے عمار صاحب سمیت عام طور سے پڑھنے والے دونوں شرطوں کے مجموعہ کو حنفیہ کے نزدیک شرط سمجھنے لگے۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وأما أبو حنیفة وأصحابه فقالوا لاینتقض العهد بالسب ولا یقتل الذمی بذلك لکن یعزر علىٰ اظهار ذلك کما یعزر علىٰ إظهار المنکرات التي لیس لهم فعلها کإظهار أصواتهم بکتابهم ونحو ذلك… ومن أصولهم أن ما لا قتل فیه عندهم مثل القتل بالمثقل والجماع في غیر القُبل إذا تکرّر فللإمام أن یقتل فاعله… و کان حاصله أن له أن یعزر بالقتل في الجرائم التی تعظمت بالتکرار وشرع القتل في جنسها ولهٰذا أفتی أکثرهم بقتل من أکثر من سب النبي صلی اللہ علیہ وسلم من أهل الذمة و أن أسلم بعد أخذه [1] ’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ سبّ و شتم سے معاہدہ نہیں ٹوٹتا اور ایسا کرنے پر ذمی کو قتل نہ کیا جائے، البتہ اس کے اظہار (یعنی اعلانیہ کرنے) پر اس کو تعزیر کی جائے گی جیسا کہ دوسرے منکرات کے اظہار پر جن کو کرنے کی ذمی کو اجازت نہیں ہے جیسا کہ ذمیوں کی اپنی دینی کتاب کو آواز سے پڑھنا وغیرہ… اور حنفیہ کے اُصولوں میں سے ایک اصول و ضابطہ یہ ہے کہ جن جرائم پر قتل کی سزا نہیں ہے جیسے کسی بھاری چیز سے قتل کرنا یا لواطت کرنا جب مجرم ان جرائم کو بہ تکرار کرے تو امام اس کے مرتکب کو قتل کر سکتا ہے… اس ضابطہ کا حاصل یہ ہے |