Maktaba Wahhabi

56 - 95
دیا۔ ان کے اس فعل پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی۔‘‘ اس عبارت میں صرف اس بات کا ذکر ہے کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علانیہ توہین کرے تو اس کی سزا قتل ہے اور یہ بات علامہ عینی، ابن ہمام، مفتی ابو سعود، شیخ خیر رملی، ابن کمال پاشا اور امام محمد رحمہم اللہ کی کہی ہوئی ہے۔ البتہ امر سلطانی میں علانیہ توہین کے بجائے عادت بن جانے کا ذکر ہے۔ اب یہاں ہم ان میں سے ہر ایک کی عبارت علیحدہ علیحدہ ذکر کرتے ہیں: 1.امام محمد رحمہ اللہ استدل لبیان قتل المرأة إذا أعلن بشتم الرسول… ’’ عورت جب توہین رسالت اعلانیہ کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا…‘‘ نوٹ: امام محمد رحمہ اللہ متاخرین میں سے نہیں ہیں بلکہ کلاسیکی یعنی متقدمین فقہا میں سے ہیں۔ 2. علامہ عینی رحمہ اللہ قال الرملي عبارة العیني قال الشافعي ینتقض به لأنه ینقض بنقض الإیمان فالأمان أولىٰ وبه قال مالك و أحمد واختیاري هٰذا. فقوله هذا إشارة إلىٰ النقض لا إلىٰ القتل ولایلزم من عدم النقض عدم القتل… إذ صرحوا قاطبة بأنه یعزر علىٰ ذلك ویؤدب وهو یدل على جواز قتله زجرًا لغیره إذ یجوز الترقي في التعزیر إلىٰ القتل إذا عظم موجبه [1] ’’علامہ رملی رحمہ اللہ نے لکھا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ کی عبارت یہ ہے: ’’امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ توہین نبی سے ذمّہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی مسلمان کسی نبی کو سب و شتم کرے تو اس کا ایمان جاتا رہتا ہے پھر اگر کوئی ذمی ایسا کرے تو اس کو جو امان اور ذمہ حاصل ہے وہ بطریق اولیٰ جاتا رہے گا۔ یہی امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے اور میں بھی اسی کو یعنی ذمہ ختم ہونے کو اختیار کرتا ہوں۔‘‘ علامہ رملی کہتے ہیں… ذمہ نہ ٹوٹنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قتل نہ ہو… کیونکہ تمام فقہا اس کی تصریح کرتے ہیں کہ ذمی کو توہین کرنے پر تعزیر کی جائے گی اور یہ بات اس پر دلیل ہے کہ دوسروں کو زجر کرنے کے لیے مجرم کو قتل کرنا جائز ہے کیونکہ جب جرم بڑا ہو تو تعزیر میں قتل بھی شامل
Flag Counter