جائے گا کیونکہ جس کفر و شرک پر وہ قائم ہے، وہ اس سے بڑا جرم ہے البتہ اس کو تعزیر کی جائے گی۔‘‘ ٭ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال أصحابنا في من سب النبي صلی اللہ علیہ وسلم أو عابه… ولوکان ذمیًا عُزر ولم یقتل[1] ’’ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ جو ذمی توہین رسالت کرے، اسے تعزیر کی جائے گی البتہ قتل نہ کیا جائے گا۔‘‘ ٭ امام طحاوی رحمہ اللہ مختصر الطحاوي میں لکھتے ہیں: ومن کان ذلك منه من الکفار ذوی العهود… أمر أن لایعاوده فإن عاوده أدب علیه ولم یقتل [2] ’’اگر توہین رسالت کرنے والا کافر ذمی ہو تو اس کو حکم کیا جائے گا کہ وہ آئندہ توہین کا اعادہ نہ کرے۔ اور اگر وہ اعادہ کرے تو اس کو تعزیر کی جائے گی اور اس کو قتل نہ کیا جائے گا۔‘‘ ہم کہتے ہیں، یہاں دو احتمال ہیں: 1.پہلا یہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول لا یُقتل کا مطلب یہ ہو کہ لا یقتل حدًا یعنی حد کے طور پر قتل نہیں کیا جائے گا۔ البتہ اس کو تعزیر کی جائے گی جس میں مجرم کی زیادہ سرکشی کی صورت میں قتل کی سزا بھی شامل ہے۔ اس صورت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ اور متاخرین کا تعزیر بالقتل پر اتفاق ہوا۔ 2. اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مراد یہ ہو کہ خواہ کتنی سرکشی ہو، ذمی کو تعزیر میں قتل نہ کیا جائے گا تو عمار صاحب بھی اس کے قائل نہیں اور امام صاحب سے بھی یہ بعید معلوم ہوتا ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ اور متاخرین حنفیہ کا قول درِّمختار کے باب الجزیہ میں ہے: و یؤدب الذمی و یعاقب علىٰ سبه دین الإسلام أو القرآن أو |