توہین رسالت پر جرات کریں گے۔ 3. توہین رسالت پر سزا کا قانون بنانے کا ہمیں حق حاصل ہے۔ اور وہ قانون بن چکا ہے لیکن ہمارے ملک کے بے دین طبقے کو اور عیسائی حکومتوں کو یہ قانون پسند نہیں ہے۔ امریکہ اور یورپ کی عیسائی حکومتوں کا ہمارے ملک کی حکومتوں پر مسلسل دباؤ ہے اور اس کے لیے وہ میڈیا پر بے تحاشہ خرچ کر رہی ہیں کہ اس قانون کو ختم کیا جائے تاکہ عیسائی اورقادیانی اور دیگر گمراہ لوگ اس قانون کی پکڑ سے آزاد ہو کر جیسی چاہیں گستاخی کریں اور یا تو بالکل سزا نہ پائیں یا محض خانہ پری کر دی جائے۔ اسی طرح ہمارا دین بیزار اور حکمران طبقہ اس قانون کو برا کہے تو اس کو بھی کچھ نہ کہا جائے۔ ان حالات میں ملک کے عوام و علما اگر ذمی کی سزائے موت کو ضروری سمجھیں تو عمار خان صاحب کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اُمت کے اندر انتشار پیدا کریں اور لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ قانون سازی میں مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر غور نہیں کیا گیا۔ حکمتوں اور مصلحتوں پر غور نہیں کیا گیا اور حنفیہ کی رائے کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے لہٰذا قانون ساز ادارے دوبارہ غور وفکر کر کے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کریں۔ احناف کا تفصیلی موقف: امام محمد رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر متقدمین کا موقف ٭ امام سبکی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب السیف المسلول میں ذکر کیا کہ وحکی عن أبي حنیفة رحمه الله قال لا یقتل الذمي بشتم النبي صلی اللہ علیہ وسلم لأن ما هم علیه من الشرك أعظم و قال القاضي عیاض… إلا أبا حنیفة والثوري وأتباعهما من أهل الکوفة فإنهم قالوا: لا یقتل لأن ما هو علیه من الشرك أعظم ولکن یؤدب و یعزر[1] ’’ روایت ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ذمی اگر توہین رسالت کرے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ جس کفر و شرک پر وہ قائم ہے، وہ اس سے بڑا جرم ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا کہ ذمی اگر توہین رسالت کرے … تو ابو حنیفہ اور سفیان ثوری اور اہل کوفہ میں سے ان کے پیروکار اس بات کے قائل ہیں کہ ذمی کو قتل نہیں کیا |