Maktaba Wahhabi

52 - 95
1.قانون ساز ادارے اور وفاقی شرعی عدالت نے حنفیہ کے قول کو چھوڑ کر ذمی میں دیگر تین ائمہ کے قول کو لیا اور اس کے موافق قانون بنا دیا جب کہ خود عمار خان صاحب لکھتے ہیں کہ قانون ساز ادارے کسی ایک فقہی مکتب فکر کے پابند نہیں ہیں… اور وہ دین وشریعت کی جس تعبیر کو زیادہ درست سمجھیں، اس پر قانون سازی کی بنیاد رکھیں۔ اس کے باوجود عمار خان پارلیمنٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں یہ خیال کریں کہ بعض لوگوں کے اس دعوے پر کہ ’’توہین رسالت کرنے والا مسلمان ہو یا کافر دونوں کی سزائے موت پر اجماع و اتفاق ہے۔‘‘ وہ دونوں ادارے بہک گئے اور ذمی کے بارے میں حنفیہ کے موقف کو نظر انداز کر گئے، معقول بات نہیں ہے۔ 2. عمار خان لکھتے ہیں:’’نویں صدی عیسوی کی چھٹی دہائی میں اندلس میں مسیحی راہنما سینٹ یولوجیس کی تحریک پر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر کے شہادت کا مرتبہ پانے کی ایک باقاعدہ تحریک چلائی گئی تھی جس میں پچاس کے قریب مسیحیوں نے مختلف اوقات میں اس جرم کی پاداش میں سزائے موت پائی۔ اس تحریک اور اس میں قتل کئے جانے والے مسیحیوں کی پوری داستان خود سینٹ یولو جیس کے قلم سے تاریخ میں محفوظ ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف عام مسلمانوں نے ابتداء ً اس طرح کے واقعات کو نظر انداز کیا بلکہ مالکی قاضیوں نے بھی بعض مجرموں کو موت دینے سے گریز کرتے ہوئے اپنی روش سے باز آنے کا موقع دیا۔ لیکن پھر ان کی ہٹ دھرمی اور ضد کو دیکھتے ہوئے اُنہیں سزائے موت دے دی۔‘‘ [1] عمار خان صاحب خود غور کریں کہ ان کے ذکر کردہ واقعہ میں عیسائیوں کی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے گستاخی کرنے والوں کو موت کی سزا دی گئی۔ سزائے موت کے باوجود ان کی ہٹ دھرمی اس وقت رکی جب ان کے پچاس آدمی مارے گئے۔ اگر ان کو سزائے موت سے کمتر سزا دی جاتی تو شاید پانچ سو سے بھی زیادہ آدمی توہین رسالت پر جری ہو جاتے۔ کیا ہمارے ملک کے حالات اس کا تقاضا نہیں کرتے جب کہ عیسائی طاقتیں توہین کرنے والوں کی اعلانیہ پشت پناہی کر رہی ہیں، اگر قانون میں نرمی ہو گی تو ان طاقتوں کی شہ پر ذمی
Flag Counter