Maktaba Wahhabi

51 - 95
کہ امام محمد رحمہ اللہ نے اس بات پر کہ جب ذمی عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعلانیہ سب و شتم کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا اس روایت سے استدلال کیا…‘‘ الغرض مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایسے ذمی کو قتل کیا جائے گا الا یہ کہ وہ مسلمان ہو جائے جبکہ حنفیہ کے نزدیک اسکو تعزیر کی جائے گی اور وہ تعزیر قتل بھی ہو سکتی ہے۔اب ہم کہتے ہیں کہ تعزیر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے حاکم کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ موقع و مقام کی مناسبت سے سزا سنائے لیکن یہ طریقہ آج کل متروک ہے۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ قانون ساز ادارے قانون سازی کر کے تعزیر کی کوئی خاص صورت مثلاً قتل کو متعین کر دیں اور اس کو قانون بنا دیں۔ موجودہ دور میں یہ دوسرا طریقہ رائج ہے اور حاکم کی طرف براہِ راست مقدمات نہیں جاتے، جیسا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں یہ قانون جاری ہوا تھا: ثم رأیت في معروضات المفتی أبي السعود أنه ورد أمر سلطاني بالعمل بقول أئمتنا القائلین بقتله إذا ظهر أنه معتاده ’’ مفتی ابو سعود کی معروضات میں ہے کہ سلطانی حکم جاری کیا گیا کہ ہمارے وہ ائمہ جو ذمی کے قتل کے قائل ہیں جبکہ وہ عادی ہو جائے انکے قول پر عمل کیا جائے۔‘‘ چنانچہ عمار صاحب کا قول کہ اختلافی مسئلہ کو متفقہ و اجماعی کہنا علمی و اخلاقی بددیانتی ہے، اس موقع پر درست نہیں۔وجہ یہ ہے کہ اجماع کے مجازی استعمال میں وسعت ہے۔ حنفیہ میں سے امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک ذمی اگر توہین رسالت اعلانیہ کرے تو پہلی ہی دفعہ میں اس کی سزا موت ہے۔ اس قول کے بعد یہ چاروں مذاہب کے ائمہ کا قول ہوا۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا اور ائمہ ثلاثہ کے قول پر ہی سزائے قتل کو متعین کر دیا جائے اور قانون بنا دیا جائے تو اس وقت کہا جا سکتا ہے کہ اب چاروں مذاہب والوں کا اس سزا پر اتفاق و اجماع ہے۔ اس کو عمار خان صاحب یہ کہیں کہ ’’اسے متفقہ اور اجماعی مسئلے کے طور پر پیش کرنا اور اس حوالے سے آزادانہ بحث و مباحثہ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنا علمی و اخلاقی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘ خود دیانت و اخلاق اور انتظامِ مملکت کے خلاف ہے جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
Flag Counter