کا حصہ ہے۔کیونکہ جب وہ رکوع کرتا ہے تو رکوع نام ہے جھکنے کا، پھر سراُٹھانے کا اور پھر سیدھے کھڑے ہوجانے کا اور سجدہ نام ہے قیام سے جھکنے کے وقت سے یا قعود سے ایک وقت (تک رہنے کے بعد) لوٹنا اور اعتدال اختیار کرنا۔ پس جھکنا اور اُٹھنا دونوں رکوع اور سجود کے اطراف اور ان کو پورا کرنا ہیں ،اسی لیے حدیث کے الفاظ ہیں :’’اپنی پیٹھ کو رکوع اور سجود میں پوری طرح سیدھا کرے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ رکوع سے سراُٹھاکر اطمینان سے کھڑے رہنا اور اسی طرح سجدے سے سراٹھا کر اطمینان سے بیٹھنا اسی طرح واجب ہے جس طرح رکوع اور سجدے کو پورا کرنا واجب ہے۔‘‘ امام صاحب رحمہ اللہ اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے آگے مسنداحمد کے حوالے سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ علی بن شیبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے آپ کی بیعت کی اور آپ کے پیچھے نماز پڑھی، پس آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز صحیح طریقے سے اَدا نہیں کررہا یعنی اپنی پیٹھ،رکوع اور سجدے میں پوری طرح سیدھی نہیں کرتا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ((یا معشر المسلمین! لا صلاۃ لمن لا یقیم صلبہ في الرکوع والسجود)) وفي روایۃ للإمام أحمد ((لا ینظر اللّٰه إلی رجل لا یقیم صلبہ بین رکوعہٖ وسجودہ)) (سنن ابن ماجہ:۸۶۱،مسند احمد:۲/۵۲۵) ’’اے مسلمانوں کی جماعت! اس شخص کی نماز نہیں جو اپنی پشت رکوع اور سجدے میں پوری طرح سیدھی نہیں کرتا۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں الفاظ ہیں ، فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھتا جو رکوع اور سجدے کے درمیان اپنی پشت پوری طرح سیدھی نہیں کرتا۔‘‘ اس سے واضح ہے کہ پشت کو پوری طرح سیدھا کرنا، اسی کا نام ’اعتدال فی الرکوع‘ ہے۔ مسنداحمد کی ایک اور روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أسوأ الناس سرقۃ الذي یسرق من صلاتہ، قالوا: یارسول اللّٰه! کیف یسرق من صلاتہ؟ قال: ((لا یتم رکوعھا ولا سجودھا)) أو قال: ((لا یقیم صلبہ في الرکوع والسجود)) (مسند احمد:۴/۲۳) ’’سب سے بدتر چور وہ ہے جو اپنی نماز سے چوری کرتاہے۔صحابہ نے پوچھا:اپنی نماز سے |