کہ جب مسجد لوگوں سے بھر جاتی ہے تو لوگ مسجد کے ارد گرد خالی جگہ پر صفیں بنا لیتے ہیں ، لیکن اس میں بھی صفوں کاباہم ملنا ضروری ہوتاہے تاکہ ایک جماعت تصور ہو۔ منیٰ میں رات بسر کرنے کی یہ درست مثال ہے نہ کہ کٹے ہوئے ہاتھ کی۔واللہ اعلم (ص:۵۶۷) غلافِ کعبہ کو تبرکاً چھونا 17.سوال: غلافِ کعبہ کو تبرکاً چھونا جائز ہے؟ جواب:کعبہ کے غلاف کو تبرک حاصل کرنے کے لیے چھونا بدعت ہے،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ثابت نہیں ہے۔سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جب بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے اس کے تمام اَرکان کو چھونا شروع کردیا توعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے اس فعل پر نکیر کی۔ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کا جواب یہ تھا کہ بیت اللہ کی کسی چیز کو چھوڑا نہیں جا سکتا جس پرسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ ’’تمھارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو یمانی رکنوں یعنی حجر ِاَسود اور رکن یمانی کو چھوتے دیکھا ہے۔یہ اثراس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمیں بھی کعبہ اور اس کے اَرکان کو چھونے میں سنت سے ثابت اَحکام پر عمل پیرا ہونا چاہیے،کیونکہ رسول اللہ کے اُسوہ حسنہ سے مراد یہی ہے۔باقی رہا مسئلہ حجر اسود اور دروازے کے درمیان موجود ملتزم سے چمٹنے کا تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ انھوں نے یہاں کھڑے ہو کر ملتزم سے چمٹتے ہوئے دعا کی تھی۔ واللہ اعلم (ص ۵۴۸) موتُ العالِم موتُ العالَم یہ خبراہل علم میں بڑے افسوس سے پڑھی جائے گی کہ ممتاز عالم دین مولانا عبد الرحمن عزیز حسینوی۲/ستمبر۲۰۰۹ء بعد نمازِ ظہر دنیا فانی کو چھوڑکر خالق حقیقی سے جاملے إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون مرحوم دو درجن سے زائد کتب اور بیسیوں مضامین کے مصنف تھے۔اللہ تعالیٰ ان کی مساعیٔ جمیلہ کو قبول فرماتے ہوئے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین |