Maktaba Wahhabi

76 - 79
نشانِ مردِ مؤمن باتومی گویم چوں مرگ آید تبسم بر لب او ست ان کا چہرہ مبارک اس شعر کی تصویر تھا۔ اس کمرے میں ان کے عقیدت مند صدمے اور صبر کے درمیان ایک کشمکش میں مبتلا نظر آئے۔ آنکھیں نم ناک تھیں ، دل افسردہ تھے مگر لبوں پر آہ و بکا نہ تھی کہ یہ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ بعض اَفر اد کو دیکھا کہ دیواروں سے لگ لگ کر سسکیاں لے رہے تھے۔ تنظیم اسلامی کے سینکڑوں کارکن اپنے عظیم رہنما اورداعیٔ انقلاب کے انتقال پر ایک دوسرے کو پر سہ دے رہے تھے۔ ان کی نمازِ جنازہ سنٹرل پارک، ماڈل ٹاؤن میں ادا کی گئی۔ ان کے صاحبزادے حافظ عاکف سعید صاحب نے امامت کے فرائض انجام دیئے۔ یہ نمازِ جنازہ بذاتِ خود بچھڑنے والی عظیم روح کو زبر دست خراجِ تحسین تھا۔ یوں لگتا تھا کہ پور ا شہر پلٹ پڑا ہے۔ ماڈل ٹاؤن پارک کے باہر سرکلر روڈ پر کہیں بھی گاڑی پارک کرنے کو جگہ نہ تھی۔ مجھے خود بہت دور ایک مارکیٹ کے کونے میں بڑی مشکل سے گاڑی پارک کرنے کو جگہ ملی۔ لوگ ہر طرف سے دیوانہ وار دوڑ رہے تھے۔ ٹی وی چینلز کی ٹیمیں براہِ راست کوریج کے لئے جذبہ مسابقت کا اظہار کر رہی تھیں ۔ نمازِ جنازہ ختم ہوئی تو لوگ ڈاکٹر صاحب کے آخری دیدار کے لئے ٹوٹ پڑے۔قرآنِ مجید کے عظیم خادم اور داعی کے آخری دیدار کی ایک جھلک کے لئے لوگ بے تاب نظر آتے تھے۔ حاضرین اُداس اور افسردہ تھے۔ ہزاروں آنکھیں نم ناک تھیں ۔ اسلامی انقلاب کی حسرت رکھنے والے شیدائیوں کے لئے ڈاکٹر اسرار احمد روشنی کا مینار تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ان کی آدرش اب حسرتِ نا تمام بن کے رہ جائے گی۔ ایک روشن چہرہ بزرگ کو کہتے سنا گیا کہ اتنا بڑا جنازہ لاہور کی تاریخ میں نہیں دیکھا گیا۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے جنازے میں مَیں شریک تھا مگر ڈاکٹر صاحب کے جنازے کے شرکا زیادہ ہیں ۔ شہر لاہور اس سے پہلے مولانا احمد علی لاہوریؒ، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مفتی محمد ادریس کاندھلویؒ، مفتی محمد حسین نعیمیؒ، حافظ عبد القادر روپڑیؒ اور تقریباً ۷۰ برس پہلے علامہ اقبال کے سفر آخرت کے مناظر دیکھ چکا تھا، آج پھر ایک عظیم انسان اور نابغۂ عصر کی رحلت کا سانحۂ جانکاہ اسے دیکھنا پڑا تھا۔
Flag Counter