Maktaba Wahhabi

57 - 79
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میں ایک لڑکا، ایک پاکستانی لڑکی کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتا ہے، تو کیا میڈیا اس کو ہیرو اور اسٹار بنا کر پیش کرے گا اور قوم کو اس کے بارے میں پاگل کردینے والی کوریج دکھائے گا؟ کیا ایسا کرکٹر ایک مسلمان اور نظریاتی ملک کی نوجوان نسل کے لیے ’ہیرو‘ کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے؟ یہ ذرا سنجیدگی سے غور کرنے والی بات ہے۔ کیا یہ کسی قومی کھلاڑی کی غیر ملکی لڑکی سے پہلی شادی ہے جو اس قدر دیوانگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے! اس سے پہلے عمران خان نے جمائمہ سے شادی کی۔ کرکٹ کے مشہور کھلاڑی وسیم راجہ آسٹریلیا سے ایک سفید فام خاتون کو بیاہ لائے جس کا نام عائشہ رکھا گیا۔ مدثر نذر نے بھی ایک غیر ملکی گوری خاتون سے شادی کی۔ محسن خان نے رینا رائے سے ازدواجی بندھن قائم کیا۔ رینا رائے بھارت کی مشہور اداکارہ تھی۔ سرفراز نواز نے اداکارہ رانی سے معاشقہ کے بعد شادی کی تھی۔ ان شادیوں کو میڈیا نے اس قدر کوریج نہیں دی تھی تو آج کیا خاص حالات پیدا ہوگئے ہیں جن سے مجبور ہوکر شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی کو اس قدر ہوا دی جارہی ہے؟ اگر ہماری قوم اور میڈیا کے وابستگان کا حافظہ کمزور نہیں ہے تو ہم یاد دلاتے ہیں کہ ثانیہ مرزا مغربی میڈیا کی توجہ کاباعث کیونکر بنی؟ آج سے چار پانچ سال پہلے جب ثانیہ مرزا ٹینس کی کھلاڑی کے طور پر سامنے آئی تو بھارت کے مسلمانوں نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا۔ انہیں اعتراض تھا کہ ایک مسلمان لڑکی کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ ’شارٹ‘کپڑے پہن کر ٹینس کھیلے۔ وہ اسے عورت کے لباس کے متعلق اسلام کی تعلیمات کے منافی سمجھتے تھے۔ مغربی لبرل ازم کے علمبرداروں نے اسے لبرل روایات پر حملہ سمجھا اور ثانیہ مرزا کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے۔ امریکہ اور یورپ کے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ثانیہ مرزا کے حق میں زبردست مہم شروع کی گئی۔ امریکہ کے صدر جارج بش نے ثانیہ مرزا کو ساؤتھ ایشیا کے ترقی پذیر معاشرے کی نوجوان لڑکیوں کے لیے رول ماڈل قرار دیا اور اس کی بھرپور تعریف کی۔ ثانیہ مرزا پر تنقید کرنے والوں کو رجعت پسند اور جدید ترقی کا دشمن قرار دیا گیا۔ ثانیہ مرزا جہاں بھی کھیلی، اس کی بھرپور تشہیر کی گئی۔ ومبلڈن ٹینس چمپئن شپ میں جب وہ کھیلنے گئی تو عالمی میڈیا کی آنکھ کا تارا بنی رہی۔ اُسے مشہور اور اہم ترین کھلاڑیوں سے زیادہ کوریج ملی۔ البتہ وہ کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی۔ پہلے ہی راؤنڈ میں شکست کھا کر باہر ہوگئی۔ برطانوی اخبار’ گارڈین‘ نے اُس کی شکست پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ وہ ومبلڈن کی گراؤنڈ میں شکست کھا گئی ہے مگر ساؤتھ ایشیا کے تہذیبی میدان میں اُس نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں ۔ اُس نے اپنے سماج کی پرانی فرسودہ روایات کو توڑ کر نئی نسل کے لیے آگے بڑھنے کی نئی راہیں ہموار کردی ہیں ۔ مختصراً یہ کہ مغرب جو ترقی پذیر معاشروں بالخصوص اسلامی معاشروں کی عورتوں کو گھروں سے نکال کر ہر میدان میں مردوں کے برابر لاکھڑا کرنا چاہتا ہے، ثانیہ مرزا کی صورت میں اُسے ایک دلچسپ تشہیری گڑیا ہاتھ لگی۔ ۲۲/اپریل کو جب شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی جوڑی کراچی ایئرپورٹ پراُتری تو چاہنے والوں کا ایک ہجوم پہلے سے ان کے انتظار میں تھا۔ ایک دن پہلے سے ٹی وی چینلز پر Tickers چل رہے تھے جن میں ان کی آمد کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی۔ عوام کا ایک طبقہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو میڈیا کی تشہیر کا غیرمعمولی اثر قبول کرتا ہے۔ یہ معاملات پر کوئی زیادہ غوروخوض کا قائل نہیں ہوتا۔ یہ تماش بینی کے مواقع کو
Flag Counter