ب)قرآن وسنت کے احکام کی تعبیر کیلئے مندرجہ ذیل مآخذ سے رہنمائی حاصل کی جائے گی: (iتعامل اہل بیت ِ عظام وصحابہ کرامؓ (iiسنت خلفاے راشدین ؓ (iii اجماعِ اُمت (ivمسلّمہ فقہا ومجتہدین کی تشریحات ج)قرآن وسنت کی تعبیر کا وہی طریقہ کار معتبر ہو گا جو مسلّمہ مجتہدین کے علم اُصولِ تفسیر اور علم اُصول حدیث وفقہ اور اجتہاد کے مسلّمہ قواعد وضوابط کے مطابق ہو گا۔ اسی شق نمبر۲میں ذیلی شق(۲ب)کا اضافہ کیا جائے جو حسب ِذیل ہے: ب)کوئی قانون یا قانون کی کوئی شق جو قرار دادِ مقاصد میں دیئے گئے حقوق سے متصادم ہو اسے کالعدم اور منسوخ قرار دیا جائے گا۔ 3.آئین کے آرٹیکل ۳۱کی ذیلی شق ’ج‘کے بعد ’د،ہ،و‘ اور ’ز‘کا اضافہ کیا جائے جو حسب ذیل ہے: د) انتظامیہ عدلیہ اور مقننہ کے ہر فرد کے لیے فرائضِ شریعت کی پابندی اور محرمات سے اجتناب لازم ہو گا اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا وہ مستوجب سزا ہو گا۔ (بشرطیکہ کسی دوسرے قانون کے تحت یہ جرم مستوجب ِسزا قرار نہ دیا گیا ہو) ھ) خلافِ شریعت کاروبار یا حرام طریقوں سے دولت کمانا ممنوع ہو گا۔ اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ مستوجب ِسزا ہو گا۔ (بشرطیکہ کسی دوسرے قانون کے تحت یہ جرم مستوجب ِسزا نہ ہو) و) شریعت کے اُصولوں کے مطابق تعلیم کا انتظام۔ ز) عدلیہ اور دوسرے محکموں کے لیے موزوں اشخاص کا انتخاب اور تقرر 4.آئین کے آرٹیکل۱۷۷میں علما کے عدلیہ اور دیگر اِداروں میں تقرر کے بارے میں ترمیم کی جائے۔ 5.آئین کے آرٹیکل ۲۰۳/بی میں جو شق وفاقی شرعی عدالت سے متعلق ہے،اسکو حذف کیا جائے۔ 6.’دستور‘ اور ایسا ’رواج‘ اور’ عرف‘ جس نے قانون کی حیثیت اختیار کرلی ہے، قانون کی تعریف میں شامل کیا جائے۔ |