دفعہ46:’عدلیہ‘ ایک آزاد اور بااختیار ادارہ ہوگا جس ۔۔۔پرشریعت ِاسلامیہ کی بالادستی و برتری کے علاوہ اور کوئی بالادستی نہیں ہوگی۔ المادۃ الثامنۃ والأربعون: تطبق المحاکم علی القضایا المعروضۃ أمامھا أحکام الشریعۃ الإسلامیۃ وفقًا لما دلّ علیہ الکتاب والسنۃ، وما یصدرہ ولي الأمر من أنظمۃ لاتتعارض مع الکتاب والسنۃ دفعہ48:تمام عدالتیں پیش ہونے والے جملہ مقدمات میں شریعت ِاسلامیہ کے احکامات کے مطابق فیصلہ کریں گی جس طرح کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ اور ولی الامر (امیر) کی طرف سے نافذ کردہ ان قوانین کے مطابق فیصلہ کریں گی جو کتاب اللہ اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف نہ ہوں ۔ المادۃ السابعۃ والستون: تختص السلطۃ التنظیمیۃ بوضع الأنظمۃ واللوائح فیما یحقق المصلحۃ، أو یرفع المفسدۃ في شؤون الدولۃ، وفقًا لقواعد الشریعۃ الإسلامیۃ، وتمارس اختصاصاتہا وفقًا لھذا النظام و نظامي مجلس الوزراء و مجلس الشورٰی دفعہ 67 : انتظامیہ کو شریعت ِاسلامیہ کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسے قواعد و ضوابط بنانے کا اختیار حاصل ہوگا جو مصالح عامہ اور رفعِ مفاسد کے لیے معاون ثابت ہوں گے اور وہ اپنے اختیارات، اس دستور،مجلس الوزراء اور مجلس شوریٰ کے دساتیر کے مطابق استعمال کرے گی۔ نوٹ: سعودی عرب کے مکمل دستور کے اُردو ترجمہ کے لئے جو ۸۳ دفعات اور ۱۱ صفحات پر مشتمل ہے، محدث کا شمارہ بابت جنوری ۱۹۹۳ء (ص۲۱۰تا۲۲۰) مطالعہ کریں ۔ یہ سعودی دستور۱۹۹۲ء میں نافذ کیا گیا اور تاحال بلاترمیم مملکت ِسعودی عرب میں نافذ عمل ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور۱۹۷۳ء ،۲۸۰ دفعات اور ۲۲۴ صفحات پر مشتمل ہے جس کی ذیلی دفعات بھی کافی طویل ہیں ۔ جبکہ اس میں انہی دنوں ۱۸ ویں ترمیم منظور کی جاچکی ہے۔ علاوہ ازیں ایک ہی موضوع پر پاکستانی، سعودی اور ایرانی دساتیر کی دفعات کا تقابلی مطالعہ بھی دلچسپ ومفید ہوگا۔ (ادارہ |