سے بالا تر نہ ہو گا۔ تبصرہ: دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۲۴۸ جو صدر وگورنر کو عدالتی باز پرس سے استثنیٰ عطا کرتا ہے، کی جو تشریح NROکیس میں سپریم کورٹ نے کی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رئیس مملکت مؤاخذہ سے بالا تر نہیں ۔ مزید وضاحت سپریم کورٹ سے متوقع ہے۔ نکتہ18:’’ارکان وعمالِ حکومت اور عام شہریوں کے لئے ایک ہی قانون وضابطہ ہو گا اور اس کودونوں پر عام عدالتیں ہی نافذ کریں گی۔‘‘ تبصرہ: ارکان و عمالِ حکومت اور عام شہریوں کے لئے شہری حقوق کے سلسلہ میں قانون اور ضابطہ ایک ہی ہے۔ فرق صرف ان کے نفاذ کا ہے جس کے لئے معیاری نگرانی اور اعلیٰ طرز حکومت Good Governance،صحیح نفاذ کی ضرورت ہے۔ نکتہ19:’’محکمہ عدلیہ، محکمہ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہو گا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی اور ہیئت ِانتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔ تبصرہ: عدلیہ کی آزادی اور قوانین کے تحفظ کا سول سوسائٹی،وکلا اور اب عدلیہ نے خود اہتمام کیا ہوا ہے۔ نکتہ20:’’ایسے افکار و نظریات کی تبلیغ واشاعت ممنوع ہو گی جو مملکت ِاسلامی کے اساسی اُصول و مبادی کے انہدام کا باعث ہوں ۔‘‘ دستور کے آرٹیکل۱۹،۳۱،۳۵ اور ۳۷ کے علاوہ آرٹیکل۶۲ کی ذیلی دفعہ ’ص‘، آرٹیکل۶۳ کی ذیلی دفعہ۱ ’ز‘، اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۵سی،۲۸۹،۲۹۸الف،ب،ج کافی حد تک مذکورہ بالا نکتہ کے اُمور کا احاطہ کرتی ہیں ۔ اس نکتہ پر دستور کے آرٹیکل اور قوانین کا مختصر جائزہ ملاحظہ فرمائیے: ٭ آرٹیکل۱۹:’’اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سلامتی یا دفاع سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع ہر شہری کو تقریر اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق ہو گا۔‘‘ ٭ آرٹیکل۳۱: ’’اسلامی طرزِ زندگی: 1.پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر |