ادبِ عربی سے ایک اقتباس مولانا عبد الجبار سلفی قابلِ رشک لمحۂ مسرت امیر المؤمنین عبد الملک بن مروان قریشی اُموی نے شعراء و اُدبا کے اعزاز میں دی جانے والی دعوتِ عام میں سرد و شیریں مشروبات، لذیذ ترین ماکولات اور رس بھرے تازہ ثمرات اتنی وافر مقدار میں مہیا کئے کہ دربارِ خلافت کے مہمانوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ ان میں علماء بھی تھے اور اُمرا بھی، شعرا بھی تھے اور ادبا بھی، مہذب شہری بھی تھے اور گنوار دیہاتی بھی۔ جب اُنہوں نے جی بھر کر من پسند مشروبات نوش کر لئے اور مرغوب کھانے تناول کر لیے تو ادھر اُدھر کی باتوں سے دل بہلانے لگے۔ کوئی تو خوش ذائقہ مشروبات کی تعریف میں مصروف تھا اور کوئی رس بھرے تازہ پھلوں کی توصیف میں رطبُ اللسان۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ ہم نے اتنا وافر کھانا کسی کی دعوت میں نہ دیکھا ہو گا اور کوئی کہہ رہا تھا کہ ہم نے اتنا مزیدار کھانا کسی کی دعوت میں کھایا نہ ہو گا۔ اس مجلس میں موجود گنوار اَعرابی سے نہ رہا گیا اور وہ بول پڑا: لوگو! جہاں تک کھانے کی مقدار کا تعلق ہے تو میں بھی اس میں تم سے متفق ہوں کہ واقعی ہم نے اتنا وافر کھانا کسی دعوت میں نہیں دیکھا، لیکن جہاں تک اس کھانے کے سب سے زیادہ لذیز اور مزیدار ہونے کی بات کرتے ہو تو میں تم سے اتفاق نہیں کرتا۔ اس کی بات سن کر تمام شرکائے محفل کھل کھلا کر ہنس دیئے اور اس کا مذاق اُڑانے لگے، لیکن امیر المؤمنین ہنسے نہ مسکرائے، بلکہ سنجیدگی سے اعرابی کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ تو نے یہ بات کسی بنا پر کی؟ اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! بات یہ ہے کہ آپ کا کھانا واقعی وافر مقدار میں تھا، لیکن اتنا مزیدار نہیں تھا، جتنا مزیدار کھانا میں خود کھا چکا ہوں ۔ امیر المؤمنین نے کہا: ہم تیرے دعوے کو اس وقت تک تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جب تک تو اپنے دعوے کو پوری وضاحت سے بیان نہ کرے۔ اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میں کسی دور میں وادیٔ حجر کی آخری سرحد پر واقع ہجرنامی بستی میں رہائش پذیر تھا، جہاں میرا باپ فوت ہو گیا اور وِرثے میں بھاری قرض اور بہت |