نقطہ نظر حافظ محمد زبیر تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور علماء کی ذمہ داریاں ۱۹۲۳ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کی صورت میں خلافتِ اسلامیہ کا ادارہ ختم ہو گیا۔ ملحد و سیکولر ترک رہنما مصطفیٰ کمال پاشا نے اپنی ایک تقریر کے دوران آسمان کی طرف اپنا مکا لہراتے ہوئے خدا کو دکھایا او مسلمانوں میں پہلی دفعہ خدا کے تصور کو ریاست سے جدا کرنے کی بدعت کا آغاز فرمایا۔ مصطفیٰ کمال پاشا اور اس کی ترینڈ نیشنل اسمبلی کے کفریہ عقائد و نظریات پر مبنی قانون سازی نے مملکتِ ترکی کو خلافتِ اسلامیہ سے ’جمہوریہ کفریہ‘ کی طرف دھکیل دیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر ۱۹۲۳ء تک خلافتِ اسلامیہ کسی نہ کسی شکل میں کہیں نہ کہیں قائم رہی تھی، لیکن اب کی بار اُمتِ مسلمہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چشم فلک نے یہ المناک منظر بھی دیکھا کہ اُمتِ مسلمہ خلافت کے مقدس ادارے سے محروم ہو گئی۔ دوسری طرف خلافتِ اسلامیہ سے جمہوریہ کفریہ کی طرف ترکی کے اس سفر اور خلافت سے محرومی نے اُمتِ مسلمہ کے ہر خطے میں بے چینی اور اضطراب کی لہر پیدا کر دی۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ جب مصر، برصغیر پاک و ہند سمیت دنیا کے دوسرے خطوں میں خلافتِ اسلامیہ کی بحالی کے لئے مختلف تحریکوں کی بنیاد رکھی گئی۔ ۱۹۲۳ء سے تا حال اُمت میں یہ فکر پھول کی خوشبو کی مانند پھیلتی ہی چلی گئی ہے کہ خلافت کے ادارے کی دوبارہ بحالی مسلمانوں کی اولین اور اَشد ذمہ داری ہے اور اس عالم ارضی میں مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ چنانچہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی علمائے کرام، دینی جماعتوں کے قائدین اور صالح فکر کے حامل مفکرین نے پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنانے کے لئے آئینی وقانونی جدوجہد کا آغاز کیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، |