Maktaba Wahhabi

29 - 79
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا عبد الحامد بدیوانی، مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر محمد حمید اللہ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور سردار عبد الرب نشتر رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ کی کوششوں کے نتیجے میں ۱۹۴۹ء میں قرار داد مقاصد منظور ہوئی اور ریاست جمہوریہ پاکستان نے اس قرار داد کو اپنے آئین کا مقدمہ بناتے ہوئے کلمہ شہادت کا اقرار کیا اور بظاہر مسلمان ہو گئی۔ قرار دادِ مقاصد کے حصول کے بعد بھی علما کی طرف سے نفاذِ اسلام کی آئینی و قانونی کوششیں جاری رہیں ۔ ۱۹۵۰ء ہی کے لگ بھگ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آئین سازی کے لئے سرکاری سطح پر ایک بورڈ قائم کیا گیا جس کا نام ’بورڈ آف تعلیماتِ اسلامیہ‘ رکھا گیا۔ اس بورڈ میں اگرچہ اس وقت کے نامور دانشور اور علماء مثلاً سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر محمد حمید اللہ، مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد انصاری اور مفتی جعفر حسین وغیرہ شامل تھے، لیکن حکومت نے اس بورڈ کی پیش کی گئی سفارشات کو قانون سازی میں کوئی اہمیت نہ دی۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جب بھی علماء یا دینی حلقوں کی طرف سے حکمران طبقے سے اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا تو ان کی زبانوں پر ایک ہی کلمہ استعجاب جاری ہو جاتا؛ کون سا اسلام نافذ کیا جائے!؟ حنفی، بریلوی، شافعی، اہل تشیع کا، یا اہل حدیث کا؟ چنانچہ جنوری ۱۹۵۱ء میں ملک کے نامور شیعہ، بریلوی، دیو بندی اور اہلحدیث علمائے کرام کی ایک جماعت نے بائیس نکات پر مشتمل ایک متفقہ فارمولا منظور کیا۔ اس قرارداد پر دستخط کرنے والوں میں مولانا مودودی، سید سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیعع، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا محمدد علی جالندھری، مولانا محمد یوسف بنوری،مولانا عبد الحامد بدیوانی، پیر مانکی شریف اور مفتی جعفر حسین وغیرہ رحمہم اللہ جیسی نامور شخصیات شامل تھیں ۔ علمائے حق کی جانب سے پاکستان کے قانون اور آئین کو اسلامی بنانے کی یہ کوشش تقریباً نصف صدی تک جاری رہیں ۔ بورڈ آف تعلیماتِ اسلامیہ ہو یا ادارۂ تحقیقاتِ اسلامیہ، اسلامی نظریاتی کونسل ہو یا وفاقی شرعی عدالت، ان سب اداروں کا قیام علمائے کرام کی اِسی ______________________ ٭ علماء کی اس طویل جدوجہد کا تذکرہ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اپنے مقالے میں کیا ہے جو ڈاکٹر عرفان خالد ڈھلوں کی کتاب ’ علم اصول فقہ : ایک تعارف ‘ کی تیسری جلد میں شامل ہے ۔
Flag Counter