کرنے کا جواز ہے۔ درج بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ اسلام پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں کسی تیسری اصطلاح کا استعمال نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ان کے ذریعے عدل، فطرت و خیر کی ایک غیر جانبدارانہ اور ماورائے اسلام اصلاح کا امکان پیدا ہوتا ہے اور جن کی روشنی میں احکاماتِ شریعت کی از سر نو تشریح کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے جو کہ شریعتِ الٰہی کے مفاہیم کو بدلنے کی ایک سازش ہے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ کوئی بھی اصطلاح غیر جانبدارانہ نہیں ہوتی، اگر ان اصطلاحات کے معنی ہم شریعت سے اَخذ نہیں کرتے تو فی زمانہ ان کے معنی غالب مغربی علمی و تہذیبی روایت ہی سے اَخذکئے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب زدہ ذہن کے لئے ان تصورات کے شرعی معنی اجنبی ہوتے چلے جا رہے ہیں ، کیونکہ وہ ان کے معنی مغربی علمی روایت سے اَخذ کرتا ہے۔ افسوس کہ معتزلی سکالرز کو بجائے جدید ذہن تبدیل کرنے کے شریعت تبدیل کرنے کی فکر لاحق ہے جیسا کہ ان کے اس جملے ہی سے واضح ہوتا ہے: ’’ہمیں اسلام کو موجودہ حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے تاکہ یہ جدید ذہن کے لئے قابل قبول ہو سکے۔‘‘ یعنی عصر حاضر کے ذہن کی ما بعد الطبعیاتی سطح کو انبیا کے طریقہ کار کے مطابق بدلنے کے بجائے جدید متکلمین نے اس ذہن کے اعتزال کے مطابق اسلام کو ڈھالنے کا کام کیا جس کے نتیجے میں دین کا حلیہ تو بگڑ گیا مگر عصر حاضر کا ذہن جہاں تھا، وہیں رہا۔ لہٰذا کسی تیسری اصطلاح پر اصرار محض بے وقوفانہ حرکت نہیں بلکہ اسلام کو جدید بنانے کی ایک خطرناک چال ہے۔ مذکورہ خطرہ تصوراتی یا محض خطرہ ہی نہیں بلکہ یہ وہ عمل ہے جو اس سے قبل عیسائیت کے ساتھ ہو چکا اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو اسلام کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس تمام عمل میں مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بعض اوقات اس کی اگلی صفوں میں وہ لوگ نظر آتے ہیں جو روایت پسندی کے علمبردار ہیں ۔ جدید اعتزال کی اس لہر کا مقابلہ صرف اہل سنت والجماعت کے ان اصولوں پر کیا جا سکتا ہے جو قرآن، سنت اور اجماع کے ساتھ اس تہذیبی و علمی روایت اور تسلسل پر بھی زور دیتا ہو جو اسلامی تاریخ کے بہترین دور میں رہا۔ |