اخلاق کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں بیان ہوا: ﴿ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِـرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخَرِ وَالْمَلٰئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّيْن﴾ (البقرة: ۱۷۷) ’’نيكی یہ نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان ایمان لائے اللہ پر، یومِ آخرت پر، فرشتوں پر، (نازل کردہ) کتابوں پر اور انبیا پر۔‘‘ اس تفصیلی تقاضائے ایمان کے بعد قرآن نیکی کرنے کے چند مخصوص اعمال کا ذکر کرتا ہے، مثلاً نماز پڑھنا، غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ۔ یہ آیت واضح طور پر یہ حقیقت بیان کر رہی ہے کہ خیر و شر کا منبع ایمان ہے۔ بنیادی انسانی قدروں کے فلسفے کا ایک گمراہ کن پہلو اس کی بنیاد پر ایک آفاقی اور ماورائے اسلام فلسفۂ عروج و زوال اخذ کرنا ہے۔ اس فلسفے کے مطابق قوموں کے عروج و زوال کا راز بنیادی انسانی قدروں کو اپنانے میں پنہاں ہے، یعنی جب کوئی قوم اجتماعی طور پر ان قدروں کا ارادہ کر لیتی ہے جو بنیادی انسای قدریں ہیں تو پھر دنیا کی زمامِ کار اسے سونپ دی جاتی ہے، یہی قانونِ الٰہی ہے۔ جب تک مسلمان بحیثیتِ قوم ان اقدار کے محافظ رہے تو وہ دنیا پر غالب رہے، آج مغرب نے اُنہیں اپنا رکھا ہے تو دنیا کی امامت کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا گیا ہے۔ گویا یہ دلیل دنیاوی سیادت کا اخلاقی جواز بنیادی انسانی قدروں سے فراہم کرتی ہے۔ نیز مسلمانوں اور مغرب کے غلبے کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہے۔ یہ دلیل اپنی وضع میں بالکلیہ غلط ہے، کیونکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے بنیادی سوال یہ ہے کہ دنیا کی امامت و سیادت حاصل ہو جانے سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا معنی یہ ہے کہ چند ایسی اقدار ہیں کہ جو قوم اُنہیں اپنا لے، وہ لازماً خلافتِ ارضی اور اُمتِ وسط کے درجے پر فائز کر دی جاتی ہے اور نوعِ انسانیت کو جنت کی طرف بلانے میں امام بن جاتی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ، کیونکہ مغرب کے تسلط نے نوعِ انسانی کے لئے جنت نہیں بلکہ جہنم جانا سہل بنا دیا ہے کہ یہ شر کا غلبہ ہے۔ اگر کسی قوم کا عالمی غلبہ لازماً جنت بنانا سہل کرتا ہے تو مغرب کے لئے ایسا کیوں نہ ہوا؟ |