Maktaba Wahhabi

73 - 79
(مثلاً سرمائے میں اضافے) کے حصول کے لئے ضروری ہے تو سچ بولنا ہرگز بھی خیر نہیں، کیونکہ قدر کسی عمل کے تسلسل یا موافقت (Consistency) کی صفت سے ہم آہنگ ہونے کا نام نہیں ، بلکہ قدر تو تب بنتا ہے جب اسے حکم خدا سمجھ کر کیا جائے۔ اسلام میں بھی سچ کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن یہ شرعی احکامات کے تابع ہے، چنانچہ میاں بیوی کے مابین صلح و صفائی کا راجح مقصد جب غالب آجائے تو حکم شرعی کے مطابق ہی وہاں جھوٹ کی گنجائش موجود ہے۔ اس طرح غریب کی مدد کرنا بالذات کوئی اچھائی نہیں بلکہ اچھائی یہ تب ہو گا جب وہ حکم خداوندی سمجھ کر کیا جائے، کیونکہ غریب کی مدد اس طور پر بھی کی جا سکتی ہے کہ ایسا کرنا مجھے اچھا لگتا ہے یا اس سے میری قوم کا بھلا ہوتا ہے۔ اگر ارادہ خداوندی سے ماورا اور اوپر (Transcendantal) کسی خیر و قدر (Value) کے کسی تصور کا امکان مان لیا جائے تو پھر کسی مذہب کے بجائے ان ’انسانی قدروں ‘ کی بنیاد پر معاشرتی و ریاستی صف بندی کی بات بھی تسلیم کرنا ہو گی۔ چنانچہ اسلام سے باہر یا علاوہ کسی خیر اور اخلاقیات کا کوئی وجود نہیں کہ جس کی بنیاد پر میں کسی سے کلام کر سکوں ۔ میں جب بھی غیر مسلم سے مخاطب ہوتا ہوں ، اسے اسلام ہی کی طرف دعوت دے سکتا ہوں نہ کہ اس کے علاوہ کسی انسانی قدر یا حقوق وغیرہ کی طرف۔ جونہی میں یہ کہتا ہوں کہ مذہب (اسلام) کے علاوہ بھی کچھ آفاقی قدریں ہیں تو گویا میں اس بات کے امکان کا اقرار کر لیتا ہوں کہ خیر کا تعین کرنے کا کوئی پیمانہ ارادۂ خداوندی سے باہر بھی ہو سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ شارع کے حکم سے اوپر بھی کوئی اُصول یا حقیقت ایسی ہے جس کی پابندی خود شارع پر لازم ہے نیز اسلام ہی الدین اور الحق نہیں بلکہ کسی بڑے تصورِ خیر کا ایک حصہ ہے۔ اخلاقیات کو ہر قسم کی ایمانیات سے ماورا کوئی انسانی وصف سمجھ کر محض ’انسانی قدروں ‘ کے طور پر قبول کرنا غلط فہمی ہے، کیونکہ اخلاقیات کوئی ٹیکنیکل چیز نہیں بلکہ ایمانیات (Metaphysics) ہی سے ماخوذ ہوتی ہیں۔ ایک عمل کسی ایک تصورِ خیر میں برا اور کسی دوسرے میں اچھا ہو سکتا ہے۔ مثلاً سود دینا اور لینا اسلام میں گناہِ کبیرہ اور جرم (Corruption) ہے جبکہ سرمایہ دارانہ تصورِ خیر کا یہ لازمی جز ہے اور وقت پر سود ادا کرنا عمدہ
Flag Counter