Maktaba Wahhabi

72 - 79
4. اسلام اور خیر: اب ہم ابتدائے مضمون میں بیان کئے گئے آخری جملے کی طرف آتے ہیں ۔ تصوراتِ عدل اور فطرت کی طرح ’بنیادی انسانی قدروں ‘ کا فلسفہ بھی عمیق غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔ ’بنیادی انسانی قدروں ‘ کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ خیر کے چند تصورات (مثلاً سچ بولنا) ایسے ہیں جو انسانیت کا تقاضا ہیں اور وہ ان معنی میں ماورائے مذہب ہیں کہ وہ اپنے جواز کے لئے مذہبی دلیل کے محتاج نہیں بلکہ وہ اپنا جواز از خود اپنے اندر (Self-Evident) رکھتے ہیں ، کیونکہ وہ تصورات آفاقی ہیں ۔ مزید یہ کہ خیر کے ان تصورات کو تمام مذاہب نے اپنی تعلیمات میں اسی لئے بطورِ خیر متعارف کروایا ہے کہ یہ آفاقی انسانی قدریں ہیں ۔ انہی ’انسانی اقدار‘ کی آڑ میں آج کل ‘’بین المذاہب مکالمے‘ کی دعوتِ عام کی جا رہی ہے۔ اہل سنت والجماعت کے نقطہ نگاہ سے کسی قدر یا خیر کو ماورائے مذہب انسانی قدر کے طور پر قبول کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ، کیونکہ خیر کسی عمل کا ’ذاتی وصف‘ نہیں بلکہ ان کی بنیاد ’حکم خداوندی‘ ہے (نہ کہ انسانی عقل یا فطرت وغیرہ)۔ خیر وہ ہے جس کا شارع حکم دے، اور یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کو ’اپنی عقل‘ سے کسی چیز کا اچھا یا برا ہونا محسوس ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ نہیں کہ جس چیز کو اس کی عقل اچھا سمجھتی ہے، اسے اختیار بھی کرے اور جس کو اس کی عقل برا سمجھتی ہے، اسے ترک کر دے۔ بلکہ وہ شخص صرف اسی بات کا مکلّف ہے جس کا شارع نے اس سے مطالبہ کیا ہے۔ مثلاً عام طور پر سچ بولنے کو انسانی قدر (Value) سمجھا جاتا ہے، لیکن سچ بولنا بذاتِ خود کوئی قدر نہیں ، کیونکہ یہ تو اس وجہ سے بھی بولا جا سکتا ہے کہ ایسا کرنا انسانی مجبوری ہے کہ وہ ’جو بھی‘ معاشرتی مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے حصول کے لئے اسے لازماً سچ بولنا پڑے گا، بصورتِ دیگر اس مقصد کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔ فرض کریں زید کا مقصد سرمائے میں لا محدود اضافہ ہے، اس مقصد کے حصول کے لئے لازم ہے کہ زید اور اس جیسے سب لوگ سچ بولنے کو لازم سمجھیں، کیونکہ اگر سب لوگ جھوٹ بولنے لگیں تو لوگ ایک دوسرے کے معاہدات پر بھروسہ نہیں کریں گے اور سرمائے کا حصول ممکن ہی نہیں رہے گا۔ پس اگر کوئی شخص اس وجہ سے سچ بولتا ہے کہ سچ بولنا کسی معاشرتی مقصد
Flag Counter