Maktaba Wahhabi

71 - 79
زندگی کا ہر گوشہ اسلام کے مطابق ہو۔ اسی لئے اس نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ﴾ (آلِ عمران: ۸۵) ’’جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے اپنی عبدیت کا اظہار کرے گا تو اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگا۔‘‘ اور﴿ إِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامْ ﴾ (آل عمران: ۱۹) یعنی ’’اظہار عبدیت کا واحد معتبر طریقہ اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔‘‘ اس تفصیل کے بعد یہ سمجھنا بھی آسان ہو گیا کہ جب ہماری انسانیت محض اظہارِ عبدیت (اسلام) کا ذریعہ ہے تو اس کا اظہار زندگی کے ہر گوشے میں ہونا ضروری ہے، چاہے اس کا تعلق میری نجی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ اس گفتگو سے یہ غلط فہمی بھی دور ہو جانی چاہئے کہ ’’مذہب سکھانے سے پہلے بچوں کو انسان بننا سکھانا چاہئے۔‘‘ یعنی پہلے اُنہیں یہ سکھائیں کہ انسان کیا ہے، پھر مذہب کی بات کریں ۔ در حقیقت یہ فلسفہ انسانیت پرستی کی تصویب (Endorsement) ہی کی ایک شکل ہے، کیونکہ ماورائے مذہب اپنے وجود کے ادراک کا مطلب یہی ہے کہ انسان اپنے ہونے کا جواز و پہچان خود اپنے اندر رکھتا ہے اور جس کا اِدراک تعلیماتِ انبیا کے بغیر بھی ممکن ہے، یعنی اصلاً ایک انسان اللہ تعالیٰ کے ماسوا ایک مستقل بالذات حقیقت، Being without Godہے۔ سوال یہ ہے کہ خود کو مذہب سے علیٰ الرغم بطور انسان پہچاننے سے کیا مراد ہے؟ یعنی میں اپنی انسانیت کو کیاپہچانتا ہوں ، اظہارِ عبدیت کا ذریعہ یا اپنی اصل؟ اگر اسے اپنی اصل پہچانا تو یہی انسانیت پرستی ہے، اور اگر اظہارِ عبدیت کا ذریعہ پہچانا تو پھر مذہب سے ماورا اپنی پہچان کی بات ہی مضحکہ خیز ہے، کیونکہ اس صورت میں جو دعویٰ میں کرتا ہوں وہ یہی تو ہے کہ انسان اپنے ہونے کا جواز اور پہچان خدا سے حاصل کرتا ہے یعنی میں لا محالہ Being with God ہوں ، اور اپنے وجود کے اِدراک سے ’پہلے‘ مجھے خدا کا ادراک حاصل کرنا ہو گا۔ چنانچہ تعلیماتِ انبیا سے صرفِ نظر کر کے انسانی ذات کا جو بھی ادراک حاصل کیا جائے گا، لازماً غلط ہو گا، کیونکہ اس کے علاوہ حقیقت کے اِدراک کا کوئی ذریعہ اس دنیا میں موجود ہی نہیں ۔
Flag Counter