ہے کہ میں حیوانات، جمادات یا نباتات کی اجناس سے تعلق رکھتا۔ مگر میں کچھ بھی ہوتا، ہر حال میں مخلوق ہوتا، یعنی اپنے وجود کی ہر ممکنہ صورت میں میری اصل مخلوق (عبد) ہونا ہی ہوتی ، یہ اور بات ہے کہ میری عبدیت کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا۔ مثلاً اگر میں پودا ہوتا تو میری عبدیت کا اظہار پودا ہونے میں ہوتی، اگر میں فرشتہ ہوتا تو یہ ملکوتیت میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ بنتی اور جب میں انسان ہوں تو میری انسانیت میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ الغرض میرا حال تو تبدیل ہو سکتا ہے، لیکن میرا مقام بہرحال مخلوق (عبد) ہونا ہی رہے گا اور یہ بہرصورت ناقابل تبدیل ہے۔ میرے وجود کی ہر حالت میرے لئے ان معنوں میں اتفاقی (Contingent) ہے کہ میں اپنی کسی حالت کا خود خالق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس حالت میں چاہا، مجھے میری مرضی کے بغیر تخلیق کر دیا نیز وہ اس بات پر مجبور نہ تھا کہ مجھے انسان ہی بناتا۔ پس ثابت ہوا کہ میری اصل مسلمانیت (بمعنی عبدیت) ہے اور انسان ہونا گویا میری مسلمانیت کے اظہار کا ذریعہ ہے اور اس کے علاوہ میری انسانیت اور کچھ بھی نہیں ۔ ہم نے عبدیت کو مسلمانیت سے اس لئے تعبیر کیا ہے، کیونکہ اصلاً تو ہر عبد مسلمان ہی ہوتا ہے، چاہے وہ اس کا اقرار کرے یا انکار، اگر وہ اس کا اقرار زبان اور دل سے کر لیتا ہے تو مؤمن و مسلم (اپنی حقیقت اور اصل کا اقرار کرنے والا اور تابعدار) کہلاتا ہے اور اگر ماننے سے انکار کرے تو کافر (یعنی اپنی حقیقت کا انکار کرنے والا) ٹھہرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کافر کوئی نئی حقیقت تخلیق یا دریافت نہیں کرتا بلکہ اصل حقیقت (مسلمانیت یعنی اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے) کا انکار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں غیر مسلم سے مخاطب ہوتا ہوں تو اُنہیں اسلام کی دعوت دے سکتا ہوں ، لیکن کسی ’ماورائے اسلام انسانی مفاد‘ کے تناظر میں ان سے مکالمہ نہیں کر سکتا۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ میری حقیقت عبد ہونا ہے اور انسانیت محض میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ ہے تو یہ سمجھنا بالکل آسان ہو گیا کہ میری انسانیت کا وہی اظہار معتبر ہو گا جس میں عبدیت جھلکتی ہو نہ کہ میری خود کی مرضی اور نفس پرستی۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری عبدیت کے اظہار کا واحد معتبر ذریعہ صرف اور صرف اسلام ہے، لہٰذا میری انسانیت معتبر تب ہی ہو گی جب میری |