سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سیکولر حضرات اپنے دعوے کی معقولیت ثابت کرنے کے لئے یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ ’’آیا پہلے اور اصلاً ہم انسان ہیں یا مسلمان؟‘‘ عام طور پر اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اصلاً تو ہم انسان ہیں اور مسلمان بعد میں ، یعنی مسلمان ہونے کے لئے پہلے انسان ہونا ضروری ہے جس سے ثابت ہوا کہ ہماری اصل انسانیت ہے نہ کہ مسلمانیت۔ یہی وہ تصور ہے جس کے ذریعے سیکولرازم مذہب کو فرد کانجی مسئلہ بنا ڈالتی ہے، کیونکہ انسانیت کو اصل قرار دینے کے بعد زیادہ معقول بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ اجتماعی نظام کی بنیاد ایسی شے پر قائم کی جائے جو سب کی اصل اور سب میں مشترک ہوتا کہ زیادہ وسیع النظر معاشرہ وجود میں آسکے۔ نیز اگر مذہب کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دینے کو روا رکھا جائے گا تو پھر ہمیں رنگ، نسل اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے معاشروں کو بھی معقول ماننا پڑے گا۔ انسان کی اصل انسانیت کو قرار دینے کے بعد مذہب کا نجی مسئلہ بن جانا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے اور یہی نقطہ تمام سیکولر نظام ہائے زندگی (چاہے وہ لبرلزم ہو یا اشتراکیت) کی اصل بنیاد ہے۔ (سیکولرازم سے ہماری مراد ایسا نظام زندگی ہے جو وحی سے علیٰ الرغم انسانی کلیات یعنی حواس و عقل وغیرہ کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہو)۔ حیرت انگیز اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مفکرین جب سیکولر حضرات سے گفتگو فرماتے ہیں تو انسانیت کی بنیاد پر اپنے دلائل قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے یا تو اُنہیں دورانِ گفتگو پے در پے شکست ہوتی چلی جاتی ہے اور یا وہ کمزور دلائل اور تاویلات کا سہارا لیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ در حقیقت انسانیت پرستی کو ردّ کئے بغیر مذہب کو اجتماعی زندگی میں شامل کرنے کی کوئی معقول علمی دلیل فراہم کرنا ممکن ہے ہی نہیں ۔ یہ سوال کہ ’’آیا پہلے اور اصلاً میں انسان ہوں یا مسلمان؟‘‘ اس کا واضح اور قطعی جواب یہ ہے کہ ’’میری حقیقت اور اصل مسلمان (بمعنی عبد) ہونا ہے جبکہ انسان ہونا محض ایک حادثہ اور میری مسلمانیت (عبدیت) کے اظہار کا ذریعہ ہے۔‘‘ اس کی تفصیل یہ ہے کہ میری اصل عبد یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونا ہے، میں انسان سے پہلے ایک مخلوق ہوں جس کا کوئی خالق ہے۔ جبکہ میری انسانیت ایک حادثہ اور اتفاقی امر ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے یوں سوچیں کہ اگر میں انسان نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ ایک صورت یہ ہے کہ میں جن یا فرشتہ ہوتا، دوسری صورت یہ |