اس سلسلے میں قرآنِ کریم کی درج ذیل واضح آیت فطرتِ انسانی کا تعین کرتی ہے: ﴿ فَطْرَۃَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللهِ ذَلِكَ الدِّيْنُ الْقَيْمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ﴾(الروم: ۳۰) ’’یہ ’فطرت‘ اللہ کی تخلیق ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا فرمایا۔ اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنے والا کوئی نہیں ۔ اور وہ (فطرت) دین قیم ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اسی طرح ایک حدیث نبوی میں ارشاد ہے کہ ہر نومولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے، جس کو اس کے ماں باپ (بگاڑ کر) یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں ۔ (صحیح بخاری: ۱۳۵۸) اسی فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور روایت میں فطرتِ اسلام بھی آیا ہے۔ یوں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اس نومولود کو اس کے ماں باپ مسلمان بنا دیتے ہیں بلکہ وہ پہلے ہی اللہ کی تخلیق کے مطابق اپنی فطرتِ حقیقی یعنی اسلام پر ہوتا ہے۔ الغرض انسان کی فطرت اسلام کے مطابق ہے اور ہمارے پاس اپنی فطرت کو پہچاننے کا کوئی مستند ذریعہ شریعت الٰہیہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ 3. اسلام اور انسانیت: جدید مغربی اعتزال کی پھیلائی ہوئی فکری گمراہیوں میں سے ایک اہم انسانیت پرستی (Humanism) بھی ہے۔ اس تصور کا اظہار شروع میں دیئے گئے بیانات نمبر ۶ تا ۸ وغیرہ میں ہے۔ انسانیت پرستی در حقیقت اجتماعی زندگی سے مذہب کو بے دخل کرنے کا کلیدی سیکولر تصور ہے۔ اس کے مطابق انسان اَصلًا عبد نہیں بلکہ آزاد (Autonomous) اور قائم بالذات (الصَّمد Self-Determined) ہستی ہے، یعنی جدید اعتزال فرد کو اصلاً عبد (انسان) کے بجائے Human سمجھتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سیکولرازم اس بات پر نہایت شد و مد سے زور دیتا ہے کہ ایک عادلانہ معاشرتی تشکیل کے لئے ہمیں ’انسانیت‘ کی سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے، نہ کہ کسی خاص مذہب، رنگ یا نسل وغیرہ کی بنیاد پر، یعنی معاشروں کی بنیاد ایسی قدر پر استوار ہونی چاہئے جو ہم سب میں مشترک ہے اور وہ اعلیٰ ترین اور بنیادی قدرِ مشترک شے اس کے نزدیک ’انسانیت‘ کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ مغربی اعتزال نے ’ہیومن رائٹس‘ کے نام پر ایک متوازی مذہب ایجاد کر کے دنیا بھر کو اس کی خود ساختہ میزان پر پرکھنے کا |