اس کائنات میں دو ہی طرح کے قوانین ہیں ، وہ جو خدا نے بنائے اور وہ جو انسان خود وضع کرتا ہے۔ جس طرح مادی کائنات سے متعلق فطری قوانین خدا نے بنائے ، اسی طرح انسانی رویے کے فطری اظہار اور اس کی پہچان سے متعلق قوانین بھی خدا نے بنائے جو شریعت کی صورت میں موجود ہیں ۔ یہ قوانین ایسے نہیں جنہیں تجربیت یا عقلیت کی روشنی میں اخذ کیا جا سکے۔ اس امکان کو ماننا در حقیقت ضرورتِ نبوت کا انکار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے علاوہ انسانی زندگی مرتب کرنے کا جو بھی قانون انسان وضع کرتا ہے، وہ سرکشی و بغاوت ہے نہ کہ اسکی فطرت کا تقاضا۔ پس فطرتِ سلیمہ وہی ہے جو اسلامی احکامات اور اس کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ جو شخص اسلامی احکامات کو اپنی فطرت اور مزاج کے خلاف محسوس کرتا ہے، درحقیقت فطرتِ غیر سلیمہ کا مالک ہے اور ایسی ہی غیر سلیم فطرت کے تزکیہ کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے تابع بنایا جائے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہوا کہ: ((لا یؤمن أحدکم حتی یکون ھواہ تبعًا لما جئت به)) (السنۃ لابن ابی عاصم: ۱۴) ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشاتِ نفس اس چیز کے تابع نہ ہو جائیں جو میں لے کر آیا ہوں (یعنی قرآن اور سنت)۔‘‘ قرآن و حدیث میں کسی مقام پر بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ ’’لوگو! ہدایت کے لئے اپنی فطرت کی طرف رجوع کرو‘‘ یا ’’پیروی کرو اپنی فطرت کی۔‘‘ وغیرہ اور نہ ہی یہ فرمایا کہ ’’اگر کسی تک نبی یا رسول کے ذریعے میرا مطالبہ نہ پہنچا تو میں اس شخص سے حواس کی بنیاد پر موأخذہ کروں گا۔‘‘[1] |