کے ذریعے انسانی فطرت کے بارے میں جاننا ناممکن ہے، یعنی انسانی ذرائعِ علم میں ایسا کوئی حتمی طریقہ موجود ہی نہیں جس کے ذریعے ہم نفسِ انسانی کا مطالعہ کر کے اس سوال کا جواب دے سکیں کہ ’’انسانی فطرت کیا ہے؟‘‘ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کی اُصولی کتابوں میں فطرت بطورِ ماخذِ شریعت کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ان کے نزدیک ان جملوں کا درست مفہوم صرف وہی ہے جو دوسرے معنی میں ادا کیا گیا ہے کہ انسانی فطرت وہی ہے جو اسلام کہتا ہے، یعنی اسلام ہی انسانی فطرت ہے اور اسلام جس شے کا حکم دیتا ہے، وہی انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ [1] مثلاً اگر اسلام کہتا ہے کہ داڑھی رکھو تو یہی فطرت ہے، اس لئے کہ ہمارے پاس انسانی فطرت کی پہچان کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہے۔ فطرت اسلام سے علیحدہ کوئی ایسی شے نہیں کہ جسے ماورائے مذہب سمجھا جا سکتا ہو اور جس کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ فلاں کام جائز ہے یا ناجائز جیسا کہ دورِ جدید کے چند معتزلہ نے ’مباحاتِ فطرت‘ اور ’دین فطرت‘ کے اُصول موضوعہ کی روشنی میں شریعت کی از سر نوع تعبیر کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔[2] جب اسلام خود فطرت کی تعریف بیان کرتا ہے تو پھر فطرت کو احکام اخذ کرنے کے لئے شریعت سے ممیّز اور ما قبل ایک آزاد اُصول کے طور پر قبول کرنا کس طرح قابل فہم ہو سکتا ہے؟ اسلام کے علاوہ اس کائنات میں انسانی فطرت جاننے کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود ہی نہیں ۔ چنانچہ اگر یہ سوال کیا جائے کہ فطرتِ انسانی کیا ہے تو اس کا جواب ہے: ’اسلام‘۔ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ انسانی مقاصد سے علیٰ الرغم انسانی رویوں کے کوئی فطری قوانین (Natural Laws) نہیں ہوتے جیسا کہ سوشل سائنسز یہ جھوٹا دعویٰ کرتی ہیں ۔[3] |