Maktaba Wahhabi

65 - 79
بدقسمتی سے عام طور پر اس جملے کے یہی معنی سمجھ لئے گئے ہیں ۔ ثانیاً: جب شارع یہ کہتا ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ انسانی فطرت کا خالق ہے بلکہ اس طریقے کا بھی خالق ہے جس کی روشنی میں انسان اپنی فطرت کو سمجھ سکتا ہے اور اس طریقے پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنی فطرت کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔ ان جملوں کے پہلے معنی نہایت خطرناک ہیں ، کیونکہ اس معنی کے تحت ہم اسلام کو انسانی فطرت پر کسنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے لئے انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے: (Islam must correspond to human nature) اس معنی کے مطابق اسلام کا انسانی فطرت کے تابع ہونا لازم ٹھہرتا ہے اور یہ واضح گمراہی ہے کیونکہ اس کا معنی یہ ہوئے کہ حق و باطل کا معیار وحی کے علاوہ کچھ اور (مثلاً نفس انسانی اور دیگر ذرائع علم وغیرہ) ہے۔ فطرت کو مستقل اور ماورائے مذہب اُصول کے طور پر قبول کرنے میں اصل مشکل یہ سوال ہے کہ وہ مستقل انسانی فطرت جس پر ہم وحی کو جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اس کا مافیہ / مشمول (Content) کیا ہے اور اس کا علم ہمیں اسلام کے علاوہ کس ذریعہ علم سے ہوا؟ اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ہمیں کسی دوسرے ذریعۂ علم سے فطرت کا علم حاصل ہو گیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس دوسرے ذریعہ علم کو وحی پر فوقیت دیتے ہیں ، اور اس صورت میں ہمیں یہ ماننا ہو گا حق و باطل کی پہچان کے لئے اسلام کے بجائے ان دیگر ذرائع پر انحصار کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔ اپنے فکری اَجداد کی روش برقرار رکھتے ہوئے جدید معتزلہ اس مشکل مقام پر یہ عجیب و غریب سمجھوتہ کرتے ہیں کہ شریعت کی ضرورت ان (گنے چنے) معاملات میں پڑتی ہے جہاں انسانی فطرت و عقل کے پاس فیصلہ کرنے کی کوئی بنیاد موجود نہ ہو، دیگر تمام معاملات میں فطرت وغیرہ ہی سے ہدایت حاصل کی جائے گی۔ ظاہری بات ہے کہ یہ سمجھوتہ خلطِ مبحث کے سوا اور کچھ نہیں ، کیونکہ سوال پھر وہی پیدا ہو گا کہ جن معاملات میں آپ شریعت کو خاموش کرتے ہیں ، وہاں فطرت کو جاننے کا ذریعہ کیا چیز ہے؟ جدید فلسفے میں علم اخلاقیات کے مباحث و مسائل کے ہر طالبِ علم پر یہ بات خوب واضح ہے کہ انسانی کلیات
Flag Counter