Maktaba Wahhabi

64 - 79
نے سچ بولا۔ جس نے اس کی بنا پر عمل کیا تو وہ اجر کا مستحق ہو گیا، اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا تو اُسی نے عدل کو ملحوظ رکھا۔‘‘ (سنن ترمذی: ۲۹۰۶) چنانچہ ہر وہ تصورِ عدل جس کا منبع شریعت کے علاوہ کچھ اور ہو، درحقیقت ظلم ہے۔ ہر وہ جدوجہد جو شریعت کے علاوہ کسی دیگر تصور عدل کو نافذ کرنے کے لئے برپا کی جائے[1]درحقیقت سرکشی ہے۔ یہی بات ابو الحسن اشعری نے صدیوں پہلے یوں ارشاد فرما دی تھی کہ ’’حسن و قبح، عدل و ظلم افعال کے ذاتی وصف نہیں بلکہ شرعی وصف ہیں ، عقل میں صلاحیت نہیں کہ وہ ان کا اِدراک کر سکے۔‘‘ 2. اسلام اور فطرت: اسلامی تاریخ کے قرونِ اُولیٰ میں جو کلامی و فکری گمراہی معتزلہ کی شکل میں ظاہر ہوئی، مسلم دنیا میں اس کی نشاۃِ ثانیہ برطانوی استعمال کے بعد متجد دین کی صورت میں ہوئی جنہیں ہم جدید معتزلہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ گو کہ دونوں گروہوں کے طریقۂ واردات میں حیرت انگیز طور پر یکسانیت ہے البتہ دونوں کے مباحث میں قدرے فرق ہے اور ایسا ہونا ضروری ہے، کیونکہ مغربی استعمار نے جو فکری مسائل پیدا کئے ہیں ، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ان مسائل سے مختلف ہیں جو یونانی فکر کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ جدید معتزلہ کی بنیادی غلطی یہی ہے کہ وہ خود شریعت کو معیار بنانے کے بجائے دیگر اقدار اور تصورات کو اَحکامات اخذ کرنے کے لئے بطورِ معیار قبول کرنے کی طرف مائل نظر آتے ہیں ۔ ان تصورات میں سے ایک اہم اُصول ’فطرتِ انسانی‘ اور اس کے تقاضے ہیں ۔ (ایک اور اہم اصول ’حالات اور وقت کے تقاضے‘ بھی ہیں مگر یہاں ہم اس سے صرفِ نظر کرتے ہیں )۔ مذہب سے ماورا تصورِ عدل کی طرح اوپر دیئے گئے بیانات نمبر ۴ اور ۵ بھی فکری کج روی کا باعث بنتے ہیں ، کیونکہ ان کے دو معنی ممکن ہیں : اوّلاً: انسانی فطرت علیحدہ سے کوئی معلوم شے ہے اور اسلام اس کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے فطرت احکامات اَخذ کرنے کا ایک علیحدہ مستقل اُصول ٹھہرتا ہے۔
Flag Counter