بیان کرنا ممکن ہی نہیں ۔ لہٰذا یہ سوال کہ ’عدل کیا ہے؟‘ اس کا واحد جواب ہے: ’شریعت‘، اور عدل کو احکاماتِ شریعت اخذ کرنے اور اُنہیں جانچنے کے مستقل اور آزاد اُصول کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ۔ سادہ سی بات ہے کہ جب ہر معاملے میں خود شریعت عدل و ظلم کی تعریف بیان کرتی ہے تو احکام اَخذ کرنے کے لئے عدل کس طرح بطورِ اُصول تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ یعنی جب شریعت خود اس بات کی وضاحت کرے گی کہ کیا چیز معتدل ہے اور کیا غیر معتدل، تو ازن، اعتدال اور انصاف کے تصورات کو کسی عمل کی اجازت دینے یا نہ دینے کے لئے آزاد اُصول کے طور پر قبول کرنا نا قابل فہم ہو جاتا ہے۔ اگر انصاف کا مطلب اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق عمل کرنا ہے اور توازن کا مطلب اس طریقے کا انتخاب ہے جو کتاب و سنت میں بیان ہوا، تو انصاف و توازن کو اَخذِ احکامات کے لئے ایک اُصول کے طور پر سمجھنا کس طرح ممکن ہے؟ یاد رہنا چاہئے کہ اسلام ہی عدل و توازن کا نام ہے اور کفر اپنی تمام تر تشریحات میں ظلم و عدمِ اعتدال ہے۔ ظلم کا مطلب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹنا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا:﴿ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللہُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ ’’جو لوگ اس کے مطابق فیصلے نہیں کرتے جو ہم نے نازل کیا تو وہی تو ظالم ہیں ۔‘‘ (المائدۃ: ۲۳) قرآنِ کریم میں فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْل ﴾ (النساء: ۵۸) ’’جب تم لوگوں كے مابين فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ ہی فیصلہ کرو۔‘‘ شریعتِ اسلامیہ کے تصورِ عدل کی حتمی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جامع ترمذی میں روایت کیا ہے: ((کتاب اللہ فيه نبأ ما كان قبلكم وخبر ما بعدكم وحكم ما بينكم ھو الفصل ليس بالھزل. من قال به صَدَق ومن عمل به أُجر و من حَكَمْ به عدل)) ’’یہ اللہ کی کتاب (قرآنِ مجید) ہے جس میں گذشتہ قوموں کے حالات ہیں اور آنے والے واقعات کی خبر ہے۔ یہ کتاب تمہارے مابین پیش آنے والے مسائل کے لئے فیصلہ کن (حَکَم) ہے۔ یہ فیصلہ کرنے والی کتاب ہے، کوئی مذاق نہیں ۔ جس نے اس کی بنا پر کوئی بات کی تو اس |