Maktaba Wahhabi

62 - 79
عقل اور وجدان کا انکار کرنے کے بعد ہی کوئی شخص الہامی رہنمائی کی ضرورت کا قائل ہو سکتا ہے۔ ارسطو اور افلاطون جیسے یونانی فلاسفہ کا یقین تھا کہ وہ عقل کے ذریعے عدل اور ظلم کے درمیان فرق تلاش کر سکتے ہیں ۔ ارسطو کا خیال تھا کہ صحیح عمل دو انتہاؤں کے درمیان حدِ اَوسط کا نام ہے مگر وہ ’حدِ اوسط‘ کیا ہے، ارسطو اس بارے میں کوئی واضح تمیز قائم کر سکنے سے قاصر رہا۔ جن عیسائی اور مسلم مفکرین نے ارسطو وغیرہ کے فلسفے پر اعتماد کیا، اُنہیں پیغمبروں کی ضرورت تسلیم کرنے میں مشکل محسوس ہوئی اور بالآخر وہ اس سمجھوتے پر اُتر آئے کہ پیغمبروں اور فلاسفہ دونوں کی تعلیمات کا مقصد صحیح اور غلط کے درمیان فرق واضح کرنا ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انبیا کا طریقہ سادہ و آسان ہے اور وہ عام لوگوں کے لئے ہے جبکہ فلاسفہ کا طریقہ مشکل اور سمجھنے میں دشوار گزار ہے لہٰذا وہ خواص کے لئے ہے۔ گویا ان کے اس تصور کا یہ نتیجہ نکلا کہ فلاسفہ کا طریقہ ایک اعتبار سے انبیاء سے اعلیٰ ہے۔ مسلم دنیا میں فارابی و ابن سینا نے اور عیسائی دنیا میں اگسٹائین و ایکوناس نے یونانی فلاسفہ کی تعلیمات کو اسلام و عیسائیت سے مربوط کرنے کی کوششیں کیں۔ مگر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی مفاہمانہ کوششوں کو کلی طور پر مسترد کر دیا اور اُنہوں نے اس قسم کے دعووں کی ناموزونیت کو واضح کر دیا۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اہل سنت والجماعت کی ترجمانی میں فرماتے ہیں کہ صحیح و غلط، عدل و ظلم، اِعتدال و انتہا کے درمیان فرق جاننے کے صحیح طریقے کو جاننے سے عقل مکمل طور پر قاصر ہے۔ ان فلاسفہ کے بے تکے دعووں کو قبول کرنے کا مطلب دراصل تعلیماتِ انبیا کی تردید ہے جو کہ انسان کی بنیادی ضرورت ’رہنمائی‘ سے انکار ہے۔ معلوم ہوا کہ شریعتِ اسلامی ہی وہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم نیکی و بدی، صحیح و غلط عدل اور ظلم کے درمیان تمیز قائم کر سکتے ہیں ۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایسی کوئی غیر اَقداری قدر (عقل یا فطرت وغیرہ) نہیں جس کے ذریعے اسلام کو جانچا جا سکے کہ اسلام عدل ہے یا نہیں ؟ اِنتہا ہے یا اعتدال، کیونکہ اسلام ہی عدل و ظلم قائم کرنے کا پیمانہ و معیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت نے شیعہ اور معتزلہ کے برعکس عدل کو اسلام کے بنیادی ستونوں میں شامل نہیں کیا، کیونکہ عدل کو شریعت کے علاوہ کسی دوسری (غیر جانبدارانہ) اصطلاح میں
Flag Counter