Maktaba Wahhabi

61 - 79
1. اسلام اور عدل : ٭ یاد رکھنا چاہئے کہ بیانات نمبر ۱ تا ۳ کی دو ممکنہ تعبیرات کی جا سکتی ہیں : اوّلاً: تصورِ عدل گویا احکاماتِ شریعہ اَخذ کرنے اور جانچنے کا آزاد اور مستقل اُصول ہے، اس کے لئے انبیاء کی رہنمائی اور وحی کی ضرورت اضافی ہے جیسا کہ معتزلہ اور شیعہ نے سمجھا۔ ثانیاً: شریعت عدل اور توازن کا راستہ ان معنی میں ہے کہ شریعت بذاتِ خود عدل کی تعریف بیان کرتی ہے، جیسا کہ اہل سنت والجماعت نے سمجھا۔ اُصولی اور عقلی اعتبار سے ان جملوں کی صرف دوسری تعبیر ہی درست تسلیم کی جا سکتی ہے۔ ’اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلام ’عدل‘ کا مذہب ہے مگر اصل جاننے کی بات یہ ہے کہ ’عدل کیا ہے؟‘ عدل کی سادہ تعریف یہی ہے کہ ’حقدار کا حق ادا کرنا‘ یعنی جس شے کا جو حق ہے وہ اسے دینا‘عدل کہلاتا ہے۔ اس تعریف کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’کسی شے کا حق کیا ہے اور یہ کیسے معلوم ہو گا؟‘‘ چنانچہ عدل کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے دین کو توازن اور اعتدال کا راستہ قرار دیتا ہے تو وہ اپنے تمام علم کی بنیاد پر یہ کہتا ہے کہ وہ اس طریقے کا خالق ہے جس کے ذریعے ہم متوازن و غیر متوازن عمل کے درمیان فرق کر سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس طریقے کی وضاحت انبیائے کرام کے ذریعے فرما دی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہی انسان اپنی زندگی کو عدل کے تقاضوں کے مطابق گزار سکتا ہے۔ یہ طریقہ اپنی اصل شکل میں قرآن، احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماعِ اُمت کی صورت میں محفوظ ہے۔ اسی طریقے (شریعت) کو اللہ تعالیٰ نے نیکی و بدی، عدل و ظلم، اعتدال اور انتہا کے درمیان فرق قرار دیا ہے ۔[1] انسانی کوششوں ، حسیات، عقل اور وجدان کی مدد سے اس طریقے کو پا لینا ناممکن ہے۔ درج بالا بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اِدراکِ حقیقت کے لئے انسانی حسیات،
Flag Counter