المالكية إلي جوازھا (تکملة فتح الملھم ۴ء۱۵۹، فتح الباری: ۱۰/ ۳۹۱) ’’خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تصویر کشی بالاتفاق ناجائز ہے جبکہ وہ مجسم شے ہو۔ البتہ غیر مجسم شے کی تصویر کشی کی حرمت پر تین ائمہ فقہا تو متفق ہیں اور مالکیہ کا مختار مسلک کراہت کا ہے لیکن بعض مالکیہ کے یہاں اس کا جواز بھی پایا جاتا ہے۔‘‘ 2. جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے مولانا محمد زاہد صاحب لکھتے ہیں : ’’کیونکہ بیشتر فقہا کے یہاں جاندار کی تصویر کے بنانے یا رکھنے میں متعدد استثناءات موجود ہیں ۔‘‘ (مجلّہ البلاغ ص ۱۵ ذوالحجہ ۱۴۲۹ھ) ہم کہتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ تصویر کے مسئلہ میں دو لفظ استعمال ہوتے ہیں ۔ ایک تصویر بمعنی مصدر یعنی تصویر بنانا اور دوسرے اتخاذِ صورت یعنی تصویر کو رکھنا اور استعمال کرنا۔ تصویر سازی یعنی تصویر بنانا خواہ مورتی کی صورت میں ہو یا کاغذ و کپڑے پر وہ بالاتفاق حرام ہے۔ مالکیہ میں سے کسی نے یہ تصریح نہیں کی کہ اُن کے نزدیک کاغذ و کپڑے پر تصویر بنانا جائز ہے۔ اسی وجہ سے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال أصحابنا وغیرھم من العلماء تصویر صورۃ الحیوان حرام شدید التحريم وھو من الكبائر لأنه متوعَّد عليه بھذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث وسواء صنعه بما يُمتھن أو بغيره فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاھاة لخلق الله تعالٰي وسواء ما كان في ثوب أو بساط أو درھم أو دينار أو فلس أو إناء أو حائط أو غيرھا (شرح مسلم: ۱۴/۸۱) ’’ہمارے اصحاب (یعنی علمائے شافعیہ) اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ جاندار کی تصویر بنانا شدید حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے کیونکہ اس پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے خواہ اس کو ایسی چیز پر بنایا ہو جس کی اہانت کی جاتی ہو یا کسی دوسری چیز پر۔ غرض تصویر بنانا ہر حال میں حرام ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے ساتھ مشابہت ہے۔ اور خواہ تصویر سازی کپڑے پر ہو یا چادر پر ہو یا درہم، دینار یا پیسے پر ہو یا برتن یا دیوار وغیرہ پر ہو۔‘‘ البتہ تصویر رکھنے اور استعمال کرنے کے بارے میں کچھ اختلاف ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : أما اتخاذ المصور فیه صورۃ حیوان فإن کان معلقًا علی حائط أو ثوبا |