جس پر نیک کاموں کی بے حرمتی بنتی ہو۔ ان میں ہر مباح بھی جائز اور نیک کام بھی جائز ہے۔‘‘ (’محدث‘ دسمبر ۲۰۰۸ء: ص ۴۸) اور اسی پر مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کلام بھی محمول ہے: ’’یہ (ٹی وی سکرین) چاقو ہے، اس سے خربوزہ کاٹو گے تو جائز ہے اور کسی کا پیٹ پھاڑو گے تو ناجائز ہے۔‘‘ (ایضاً: ص ۴۸) دوسری وضاحت: دار العلوم کراچی کے رمضان ۱۴۲۹ھ میں جاری کئے گئے فتوےٰ میں جاندار کی تصویر کے بارے میں فقہا کی آراء کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’اگر تصویر مجسموں کی شکل میں ہو اور اُس کے وہ تمام اعضاء موجود ہوں جن پر زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ نیز وہ تصویر بہت چھوٹی بھی نہ ہو اور گڑیوں کی قسم سے بھی نہ ہو تو اس کے حرام ہونے پر پوری اُمت کا اتفاق ہے یعنی اس کا بنانا اور استعمال کرنا بالاتفاق حرام اور ناجائز ہے اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اگر تصویر مجسموں کی شکل میں نہ ہو بلکہ وہ کاغذ یا کپڑے وغیرہ پر اس طرح بنی ہوئی ہو کہ اس کا سایہ نہ پڑتا ہو تو اس کے بارے میں ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ جمہور فقہاء کرام رحمۃ اللہ علیہ کا موقف اس میں بھی یہی ہے کہ یہ بھی ناجائز ہے، البتہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ایسی تصویر کے جائز اور ناجائز ہونے کی دونوں روایتیں منقول ہیں ۔ اس لئے علمائے مالکیہ کے یہاں اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ بعض مالکیہ ایسی تصویر بلا کسی کراہت کے مطلقاً جائز قرار دیتے ہیں خواہ وہ موضع امتہان میں ہو یا نہ ہو۔ مالکیہ میں سے جو حضرات ان تصاویر کے جائز ہونے کا فتویٰ دے رہے ہیں اُن میں بہت سے بڑے بڑے محققین علماء بھی شامل ہیں ۔ علامہ ابن القاسم مالکی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ دردیر مالکی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ ابی مالکی رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔ وغیرہ جلیل القدر محققین قابل ذکر ہیں ۔ حنابلہ کے یہاں بھی کپڑے یا پردے پر بنی ہوئی تصویر کے جائز اور ناجائز ہونے کی دونوں روایتیں موجود ہیں ۔ علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے ’المغنی‘ میں اور علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’فتح الباری‘ میں حنابلہ کا مذہب بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اُن کے یہاں کپڑے پر بنی ہوئی تصویر حرام نہیں ۔۔۔۔ بعض سلف مثلاً حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر (جن کا شمار فقہائے مدینہ میں ہوتا ہے) سمیت بعض صحابہ و تابعین کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ حضرات بھی سایہ |