Maktaba Wahhabi

54 - 79
مولانا زاہد الراشدی صاحب نے یہ مطلب نکالا کہ: ’’تصویر اور سکرین دونوں کے بارے میں حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے سوا کچھ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ تصویر اور سکرین دونوں کو الگ الگ سمجھتے تھے۔ اُن کے نزدیک سکرین پر تصویر کا اطلاق نہیں ہوتا اور اگر دیگر ممنوع امور سے خالی ہو تو سکرین حد ذاتہ مباح کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘ ہم کہتے ہیں : حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فتوے سے مذکورہ مطلب نکالنا بہر حال درست نہیں کیونکہ اُن کے زمانے میں سینما کی فلم کی ریل نگیٹو کی صورت میں ہوتی تھی جس پر واضح طور پر تصویر کے نقش ہوتے تھے اور جاندار کی تصویر چھوٹی ہو یا بڑی اُس کو بنانا بالاتفاق ناجائز ہے۔ تو جب سینما کی سکرین پر آنے والی جاندار کی صورت اُس کی تصویر بنانے پر موقوف تھی تو مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات سے یہ مطلب کیسے نکل سکتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کی سکرین پر دکھائی جانے والی نیگیٹو فلم بنانے کو جائز سمجھتے ہوں گے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ احتمال ہے کہ مفتی صاحب ’’نیگیٹو فلم کو جائز نہ سمجھتے ہوں گے لیکن اُس کے بننے کے بعد سکرین پر حاصل شدہ صورت کو تصویر بھی نہ سمجھتے ہوں گے تو ہم جواب میں کہتے ہیں : 1. مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں اس احتمال پر کوئی صراحت یا دلالت نہیں ہے۔ 2. اس کے بارے میں ہم اوپر وضاحت کر چکے ہیں کہ وہ بھی تصویر کے حکم میں ہے۔ رہا سینما کے فی حد ذاتہ مباح ہونے کا معاملہ تو یہ ہمیں بھی تسلیم ہے۔ سینما و فلم جو جاندار کی تصویر اور گانے بجانے سے خالی ہو اور جس میں کوئی ناجائز امر بھی نہ ہو، وہ بلاشبہ مباح ہے۔ فلم کے ذریعہ سے جغرافیہ، تاریخ اور سائنس کے مضامین سیکھے جا سکتے ہیں ۔ جاندار کو بھی بغیر سر اور چہرے کے دکھایا جا سکتا ہے۔ ٹی وی، وی سی آر اور سی ڈی کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ فی ذاتہ مباح ہیں جبکہ اُن کے پروگرام جاندار کی تصویر سے خالی ہوں ، اسی پر مولانا زاہد الراشدی صاحب کی ذکر کردہ مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عبارت بھی محمول ہے: ’’ان کا (یعنی ٹی وی، وی سی آر کا) حکم آلاتِ لہو و لعب اور گانے کے آلات کا نہیں ہو سکتا کہ
Flag Counter