ویڈیو اور سی ڈی سے حاصل شدہ صورت کا حکم: اُوپر کے دو مقدموں کو سمجھ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ ویڈیو اور سی ڈی سے حاصل شدہ صورت یا تو خود تصویر ہے یا تصویر کے زیادہ قریب ہے اور حکم میں اس کے ساتھ لاحق ہے۔ تنبیہ۱: یہ بات اہم ہے کہ ویڈیو یا سی ڈی بنانا بذاتِ خود مطلوب و مقصود نہیں ہے بلکہ اس سے اصل مقصود سکرین پر صورت کو ظاہر کرنا ہے۔ لہٰذا ویڈیو اور سی ڈی بنانے سے لے کر سکرین پر ظاہر کرنے تک مقصد کے اعتبار سے ایک عمل ہے۔ مقصد کو نظر انداز کر کے اس عمل کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اور ہر ٹکڑے کو مستقل اور علیحدہ مقصود سمجھ کر مسئلہ کو دیکھنا درست نہیں ۔ مشہور فقہی ضابطہ ہے: الأمور بمقاصدھا لہٰذا ویڈیو ٹیپ اور سی ڈی بنانے کے عمل کو سکرین پر ظاہر کی جانے والی صورت سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ ذی صورت کی صورت کو اس طرح محفوظ کیا ہے کہ ذی صورت کی عدم موجودگی میں بھی جب چاہیں اس کی صورت کو حاصل کر سکیں ۔ اس پہلو سے بھی ویڈیو اور سی ڈی سے حاصل شدہ صورت کاغذ کی تصویر کے زیادہ قریب ہے اور اسی کے ساتھ لاحق ہونے کے مناسب ہے۔ تنبیہ۲: انہی مذکورہ وجوہ کی بنا پر اُوپر ہم نے جس نیگیٹو فلم کی ریل کا ذِکر کیا تھا کہ جس میں سے روشنی گزار کر سکرین پر تصویروں کا عکس ڈالا جاتا ہے وہ عکس بھی تصویر ہی کے حکم میں ہے۔ دو اہم وضاحتیں : پہلی وضاحت: مولانا زاہد الراشدی مدظلہ نے دسمبر ۲۰۰۸ء کے شمارہ محدث میں شائع شدہ اپنے مضمون میں حضرت مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے فتوے سے یہ بات کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے نزدیک بھی ٹی وی و سکرین پر نظر آنے والی نقل و حرکت پر تصویر کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اُنہوں نے مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات تو نقل کی کہ ’’تصویر کھینچنا اور کھینچوانا ناجائز ہے، خواہ دستی ہو یا عکسی دونوں تصویریں ہیں اور تصویر کا حکم رکھتی ہیں۔‘‘ لیکن پھر اُن کے اس فتوے کو نقل کر کے کہا: ’’سینما اگر اخلاق سوز اور بے حیائی کے مناظر سے خالی ہو اور اُس کے ساتھ گانا بجانا اور ناجائز اَمر نہ ہو تو فی حد ذاتہ مباح ہو گا۔‘‘ |