کوئی صورت نہیں ہوتی۔ جب ان برقی ٹکڑوں کو دوبارہ سکرین پر ظاہر کیا جاتا ہے تو پھر وہ اسی ترتیب ِطبع کے مطابق ہی دوبارہ ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ لیکن تب بھی ان کا سکرین پر کوئی دوام اور استقرار نہیں ہوتا بلکہ وہ ظاہر ہوتی اور فنا ہوتی رہتی ہے۔ الغرض یہاں کوئی بھی ایسا مرحلہ نہیں جس میں تصویر کسی شے پر مستقل اور دائمی صورت میں محفوظ رہے۔ یہی نوعیت تصویر کو خوبصورت بنانے والوں کے ہاں بھی ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ دائمی اور برقرار رہنے والی تصویر ہی شکل کہلاسکتی ہے۔‘‘ تصویر دیکھنے کا حکم جن تصاویرکا بنانا اور رکھنا ناجائز ہے، ان کا ارادہ اور قصد کے ساتھ دیکھنا بھی ناجائز ہے ۔ البتہ تبعًانظر پڑجائے تو مضائقہ نہیں جیسے کوئی اخبار یا کتاب مصور ہے تو مقصود اس کتاب و اخبار کو دیکھنا ہے۔ اگر بلا ارادہ تصویر بھی سامنے آجاتی ہے تو اس کا مضائقہ نہیں ۔ (جواہر الفقہ: ۳/ ۹ ۲۳) تصویر کی حرمت قطعی یا ظنی؟ جس تصویرکی حرمت پر اجماع ہے مثلاً بت ومجسمہ تو اس کی حرمت قطعی ہے اور جس تصویر کی حرمت مختلف فیہ ہے مثلاً غیر مجسم منقوش تصاویر تو اس کی حرمت ظنی ہے قطعی نہیں ، کیونکہ جن نصوص سے ان کی حرمت کا استدلال کیا جائے گا وہ عام مخصوص منہ البعض کی قبیل سے ہوں گی اور عام مخصوص منہ البعض سے حکم قطعی کی بجائے حکم ظنی ثابت ہوتا ہے ، اس لیے کہ عام مخصوص منہ البعض میں تخصیص کے بعد شبہ اور احتمال پیدا ہوجاتا ہے : ذھب جمہور الحنفیۃ منھم أبو الحسن الکرخی وأبوبکر الجصاص وعامۃ مشائخ العراقیین وأبوزید الدبوسي وأکثر مشائخ ما وراء النھر البزدوي والمتأخرون کلھم إلی أن دلالتہ علی کل فرد قطعیۃ قبل التخصیص وأما اذا دخلہ التخصیص ولو مرۃ فیکون ظنِّیًا۔وذلک إذا لم یکن المخصص دلیل العقل وإلا لا یخرج عن کونہ قطعیًا۔ (تیسیرالاصول: ص ۱۰۷، اصول الشاشی) ’’جمہور حنفی فقہا، مثلاً ابو الحسن کرخی، ابوبکر جصاص اور عام عراقی مشایخ: ابو زید دبوسی، ماورا النہر |