حدیث ِدل پروفیسر ثریا بتول علوی کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا! اگر عوام الناس سے پوچھاجائے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل کس طریقے سے ممکن ہے ؟ تو سب کا ایک ہی جواب ہوگا: ’’صحیح تعلیم کے ذریعے‘‘… یقیناتعلیم بنی نوع انسان کی ترقی، صلاح وفلاح اور کامیابی کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے مگر یہ تعلیم صحیح ہونی چاہئے۔ اورتعلیم کا صحیح رُخ ہمیں صرف اور صرف وحیِ الٰہی کے ذریعے سے حاصل ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی۔ اس میں پڑھنے کا ہی حکم دیا گیا تھا مگر ساتھ ہی تعلیم کی صحیح جہت بھی واضح کردی گئی تھی۔ سورۂ علق میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَ ٭ خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ٭ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ٭ اَلَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ٭ عَلَّمَ الاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ٭ کَلاَّ اِنَّ الانْسَانَ لَیَطْغٰی ٭ اَنْ رَّاٰ ہُ اسْتَغْنٰی ٭ إِنَّ إِلیٰ رَبِّکَ الرُّجْعٰی ﴾ (العلق:۱تا۸) ’’پڑھو! (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ربّ کے نام سے جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو! اور تمہارا ربّ بہت کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔ ہرگز نہیں ، انسان تو سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے آپکوبے نیاز سمجھتا ہے حالانکہ اس نے پلٹنا تو یقینا تمہارے ربّ ہی کی طرف ہے۔‘‘ ان آیات میں ’مسلم حنیف‘ یعنی یکسو مسلمان کے لئے نصابِ تعلیم بتایا گیا ہے کہ وہ ایسی تعلیم حاصل کرے گا جو اس کا تعلق ربّ سے جوڑے کیونکہ : ٭ ربّ ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ ٭ اس کو ربّ نے ایک معمولی چیزیعنی خون کے لوتھڑے سے بنایاہے۔ ٭ وہ ربّ انسان پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔ ٭ یہ اس کے فضل و کرم کا ہی نتیجہ ہے کہ اس نے انسان کو قلم کے ذریعے تعلیم دی۔ |