٭ اس ربّ نے انسان کو وہ سب کچھ سکھایا جو انسان نہیں جانتا تھا۔ اس نے وحی کے ذریعے انسان کو خیروشر، حرام و حلال، جائز و ناجائز وغیرہ کی پہچان کی تعلیم دے کر اس کی آخرت اور عاقبت کی تیاری کے لئے دنیا کے وسیع تر میدان میں بھیج دیا۔ اب جو شخص اپنی عملی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے لازمی ہے کہ ربّ ِکریم کی دی ہوئی تعلیم پر برضا و رغبت عمل پیرا ہو۔ ٭ مگر انسان تو بڑا سرکش ہے۔ وہ وحی الٰہی کے ذریعے دی گئی تعلیم کی قدر نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتا ہے۔ ٭ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا آخرت کی زندگی پر ایمان نہیں ۔ اگر ایمان ہے بھی تو اتنا کمزور کہ آخرت کو سنوارنے کی کوئی فکر نہیں ۔ مندرجہ بالا نکات دراصل وہ حقائق ہیں جو ربّ العالمین نے خود بیان فرمائے ہیں ۔ وہ انسان کا خالق ہے۔ اس کی فطرت کی کمزرویوں اور خامیوں سے آگاہ ہے۔ وہ ازراہِ فضل وکرم انسان کواپنی زندگی کامیاب و کامران بنانے کے لئے درست رہنمائی دے رہا ہے۔اسی بات کو پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ((خیرکم من تعلَّم القرآن وعلَّمہ)) (صحیح بخاری: ۵۰۳۷) ’’یعنی تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن پاک سیکھے پھر دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔‘‘ ((من یّرد اﷲ بہ خیرًا یفقِّھہ في الدین)) (صحیح بخاری: ۷۱) ’’جس شخص سے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے: ((وإن الأنبیاء لم یورثوا دینارًا ولا درہمًا، وإنما ورثوا العلم فمن أخذ بہ فقد أخذ حظا وافرًا)) (سنن ترمذی:۲۶۸۲) ’’یعنی انبیاے کرام نے درہم و دینار کا ورثہ نہیں چھوڑا۔ بلکہ اُنہوں نے تو علم دینی کی وراثت چھوڑی ہے۔ تو جس شخص نے اس علم دین کو حاصل کرلیا اس نے گویا (دنیا و آخرت) کا وافر حصہ پالیا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: |