((العُلماء ورثۃ الانبیائ)) (سنن ابو داود: ۳۶۴۱)’’علما ہی انبیا کے ورثہ کے مالک ہیں ۔‘‘ آج کل ’علم‘ کے فضائل و مناقب پر بڑی بیان بازی ہوتی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج ہمارے جدت پسند مغربی تعلیم یافتہ طبقے ان کو مغربی علوم پر منطبق کردیتے ہیں یعنی سائنس، ریاضی، کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی وغیرہ کی تعلیم پر۔ پھر وہ دلیل لاتے ہیں کہ خود نبی کریم ؐکا ارشاد ہے کہ ’’علم کا حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے۔‘‘ اور خود قرآن نے ہی تو سب سے پہلے اقرأ کا حکم دیا ہے۔ آہ کتنا بڑا ڈاکہ… کہ اسلام کی زرّیں اور سنہری تعلیم کوغائب کرکے اسے مغربی علوم کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اتنا بڑا شب خون… یہ تاریخ کی سنگین ترین دہشت گردی ہے، جس سے مسلمان مغالطٰہ کھا گئے۔ وہ لٹ گئے، برسرراہ وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ متاعِ کارواں ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا مگر المیہ در المیہ یہ ہے کہ ’’کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘‘ ان کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ ان کے ساتھ کتنی بڑی واردات ہوچکی ہے۔ تاریخ کی سب سے بڑی علمی خیانت کہ مسلمانوں کا علمی ورثہ اہل مغرب اپنی لائبریریوں میں لے گئے اور پھر اس ورثہ کو مغربی ’سکالرز‘ کے نام منسوب کردیا اور مسلمان، مغربی تعلیم یافتہ مسلمان یہی سمجھے بیٹھے ہیں کہ بھئی علم ہے تو اہل مغرب کے پاس۔ عروج ہے تو انہی کے پاس اور ترقی کرنی ہے تو انہی کے نصابِ تعلیم کو پڑھ کر ترقی ہوسکتی ہے۔ انہی کے نقشِ قدم پر چل کر ہوسکتی ہے۔ انہی کو مائی باپ بناکر، ان کی غیر مشروط وفاداری کرکے ہی ترقی ہوسکتی ہے۔ ان کے ملحدانہ، سیکولر اور خدا بیزار تعلیم ہی کے ذریعے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ اس سارے جاں گداز قصے کی تفصیل یہ ہے کہ مسلمانوں کا ماضی بہت درخشاں اور تابندہ رہا ہے۔ وہ علم و ادب اور صنعت و حرفت کے آسمان پر مہر تاباں بن کر چمکے اور بارہ سو سال تک اہلِ دنیا کو فیض پہنچاتے رہے۔ جب مغربی قوتوں نے طویل تاریک دور (Dark ages) گزارنے کے بعد انگڑائی لی تو مکروفریب کے ذریعے دنیا پر بالادستی قائم کرنے کی فکر میں لگ گئے۔ چنانچہ دو رِجدید کی استعماری قوتیں دنیا میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی غرض سے ابتدا ہی سے اس بات کے لئے کوشاں رہیں کہ مسلمانوں کے دل و دماغ سے ان کے ’منبعِ علم و عرفان‘ یعنی قرآن کو کھرچنا ضروری ہے تاکہ وہ مکمل طور پر ہمارے تابع فرماں بن سکیں ۔ ان کو اچھی |