طرح معلوم ہے کہ جب تک مسلمان اپنے قرآن کے مفہوم و منشا سے واقف رہیں گے اور اس کے اَحکام سے آگاہ رہیں گے، اس وقت تک اسلامی روح ان کے اندر سے نہیں نکل سکتی اور وہ ہماری بالادستی کے راستے میں رکاوٹ بنے رہیں گے۔ دوسری بات جو اس سے اہم ہے کہ کتاب و سنت کے علوم سے آگاہ، پیغمبروں کے وارث ’علمائ‘ اسلامی معاشرے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ وہی اسلامی حکومت میں قاضی ومشیر ہوتے اور فقہ واجتہاد، فتاویٰ وغیرہ کی شکل میں مرتب و مدوّن کرتے ہیں ۔ ان کا معاشرہ میں اتنا وزن ہے کہ وہ بادشاہ اور حکمران کو برسرعام خلافِ اسلام کام سے روک دیتے ہیں اور مسلمان حکمرانوں کو ان کے سامنے مجالِ انکار نہیں ۔یہ علما حکمرانوں کو اجتماعی معاملات میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے روگردانی نہیں کرنے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہراستعماری قوت نے اپنے اپنے زیر اقتدار مسلم علاقہ میں اہتمام کیا کہ معاشرہ میں ان علما کی تحقیر ہو، عوام میں ان کے خلاف نفرت پیدا کی جائے اور لوگوں کو ان سے بدظن کیا جائے۔ اسی طرح اسلامی شعائر کی تضحیک کی جائے، ترقی اور ملازمت کو مغربی علوم کے ساتھ وابستہ کردیا جائے۔ ان کے لئے دینی مدارس کسی نہ کسی بہانے سے ختم کردیئے جائیں اور وہاں کے فارغ التحصیل لوگ بھوکے اور مارے مارے پھریں ۔ اس طرح مسلمانوں کے دل کتاب و سنت کی تعلیم سے پھیر کر جدید سیکولر علوم کی طرف مائل کئے جاسکیں گے تاکہ وہ ہمارے صحیح غلام بن سکیں اور ہمارے مقاصد میں ہمارے ہم نوا بن جائیں ۔ چنانچہ زیرنگیں مسلم علاقوں میں وسیع پروپیگنڈا کیا گیا کہ اصل علم جو آج کے دور جدید کا ساتھ دے سکتا ہے وہ ’سائنس اور ٹیکنالوجی‘ کا علم ہے۔ یہ آرٹس کے علوم تو بیکارِ محض ہیں ، کیونکہ آج کے دور میں ان سے روزی روٹی کا بندوبست نہیں ہوسکتا۔ ملازمت تو صرف سکول کالج کے فارغ التحصیل کو ملے گی۔ دینی علوم سے وابستہ رہنے کو پسماندگی اور زوال کا سبب اور معاشرتی و عمرانی علوم کو فرسودہ اور بیکار روایات قرار دیا گیا کہ یہ دینی علوم کے ماہرین اور عربی و فارسی پڑھنے والے مولوی تو جاہل ہیں ۔ یہ دو ٹکے کے مولوی دنیا کے معاملات کیا جانیں ، یہ صرف لوٹے، مُصلّے اور مسجد تک ہی محدود ہیں ۔ یہ صرف نمازیں ، جنازے اور نکاح پڑھاتے رہیں ۔ ان کامعاشرے میں بس اتنا ہی کردار ہے۔ دنیا کے معاملات کو سمجھنا ان کے بس کا روگ ہی نہیں ۔ |