جائے تو یہ بھی قابل غور ہے ۔ اصلاحی و تبلیغی پروگرام اور اسطرح دیگر اچھے مناظرکی تصاویر اور فحاشی و عریانی کے پروگراموں کی تصویر کشی کو ایک ہی نگاہ سے دیکھنا کسی طرح بھی محمود نہیں ہے ۔ میری رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جس میں تصویر کوناجائز قرار دیا گیا، یہ حکم اسی تصویر کے ساتھ خاص رکھا جائے اور اس دور کے اور اس تصویر کےحکم کو ہردور اور ہر تصویر پر لاگو نہ کیا جائے ۔ ورنہ تو اس وقت کوئی شخص بھی اپنے ہاں رحمت کے فرشتوں کی آمد کا تصور نہیں کر سکتا کیونکہ ہر گھر اور ہر جیب تصویر سے بھرپور ہے۔ يسروا و لاتعسروا بشروا ولا تنفروا! مفتی غلام حسن قادری ’مسئلہ تصویر اورتبلیغ اسلام ‘‘پر مجلس مذاکرہ کی متفقہ قرار داد کا متن ’’ملی مجلس شرعی کے زیر اہتمام اسکے مستقل ارکان اورجملہ مکاتب فکر کے علمائے کرام کا یہ وسیع تر اجلاس اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ اسلام کا حیات آفرین پیغام دوسروں تک جلد اور مؤثر انداز میں پہنچانے اوراسلام اور مسلمانوں کےخلاف غلط فہمیوں اور پراپیگنڈے کے ازالے کے لیے علمائے کرام کوٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا چاہیے اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایسے تعمیری ، اصلاحی اور تعلیمی پروگرام بھی تیار کیے جانے چاہییں جو شرعی منکرات سے پاک ہوں، اسلامی دعوت و اصلاح و تبلیغ کے لیےمفید ہوں اورجن سے اسلام اور مسلمانوں کےخلاف ناجائز اورمکروہ پروپیگنڈے کا تدارک ہوتا ہو ۔ ‘‘ دستخط علمائے کرام مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی ، مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی، مولانا حافظ فضل الرحیم ، مولانا عبد المالک ، مولانا غلام سرور قادری، مولانا رشید میاں تھانوی، مولانا صلاحی الدین یوسف، مولانا عبد العزیز علوی، مولانا مفتی شیر محمد خان ، مولانا مفتی محمد خان قادری ، مولاناحافظ حسن مدنی، مولانا غلام حسین وغیرہ |