اس کے پاس پہنچا جائے کہ اسے ساری کی ساری باتیں بتا سکیں۔ سواس وقت آپ میڈیا کے ذریعے اس کو بتا سکتے ہیں اور سکھا سکتے ہیں ۔ اس وقت تصویر سے پتہ چلے گا کہ کیا بولا جا رہا ہے اوراس طرح حرکات و سکنات دیکھی جاسکتی ہیں ۔ اس لیے ایسے چینلز کا ہونا ضروری ہے جس میں اصلاح کے سارے کام متعارف کروائے جائیں ۔ اگر چینل پر بدکاری ،بے حیائی، فحاشی اورعریانی کی دعوت چل رہی ہے ، توکیا ہم اس لیے خاموش بیٹھے رہیں گے کہ تصویر حرام ہے۔ بلکہ اس کا حل اورعلاج کچھ اس طرح ہے کہ ہم انہی صلاحیتوں اور آلات کو حاصل کر کےان کامثبت استعمال کریں۔ کیمرہ ایک آلہ ہے ،تلوار بھی ایک آلہ ہے اور اگر یہی تلوار میدان جہاد میں استعمال کی جائے تو استعمال کا ثواب ہے اور اگر یہی تلوار اپنے بھائی کے خلاف استعمال کی جائے تو ثواب کی امید کی بجائے معاملہ الٹ ہوجاتا ہے ، اگر آلہ کے مقاصد اپنی ضرورت کے اندر رہیں تووہ حدود میں رہے گا۔ اور اگر اس کو ضرورت سےہٹ کر استعمال کرتے ہیں توحدود سےشمار نہیں ہو گا۔ لہٰذا میری گزارش یہی ہے کہ احباب کی دی گئی مختلف آراء کو منضبط کر دیا جائے تاکہ ان تمام دلائل کو شائع کیا جا سکےاور پڑھنے والوں کو فیصلہ کرنے میں مدد ملے ۔ .................................................................. ۴۔حزب الاحناف ،لاہور کا موقف تصویر کے مسئلہ پہ فقیر کی رائے یہ ہےکہ جس طرح بہت سے علماء کرام نے ویڈیو تصویر کے بارے میں نرمی اختیار فرمائی ہے اورجواز کا فتوی دیا ہے ، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےدور اقدس میں جو تصویر رائج تھی ، اس کی حرمت کا درجہ دے کر کیمرے کی تصویر کو جبکہ وہ کسی مثبت و جائز مقصد کے لیے ہو، تو اس پر بھی شدت کو ترک کر دینا چاہیے ۔ البتہ اگر اس تصویر کے ذریعے مفاسد کا دروازہ کھلتا ہے جس طرح کہ اخبارات وغیرہ میں فلمی تصاویر اور عورتوں کی تصایر کی بھر مار ہے تو یہ کسی طرح بھی جواز کے مرے میں نہیں آئے گی ۔ فقہاء نے بالکل چھوٹی تصویر یا وہ تصویر جو نماز پڑھتے ہوئے پاؤں کے نیچے روندی جائے تواس کی موجودگی میں نماز کو جائز قرار دیا ہے ۔ اگر اس پر قیاس کر کے کچھ وسعت پیدا کر لی |