Maktaba Wahhabi

88 - 127
تبدیلی سے کسی چیز کی حلت اور حرمت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر تصاویر ناجائز ہیں توخواہ ہاتھ سے بنائی گئی ہوں یا مشین سے؛ دونوں ناجائز ہیں ۔ البتہ مصر کے ایک عالم دین علامہ شیخ محمد بخیت رحمہ اللہ جو عرصۂ دراز تک مصر کے مفتی بھی رہے، بڑے عالم اورمتقی تھے، محض ہوا پرست نہیں تھے۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ کیمرے سے لی جانی والی تصویر جائز ہے۔ دلیل میں فرمایا کہ حدیث میں جس تصویر کی ممانعت کی گئی ہے، اس کی علت ’مشابہت بہ خلق اللہ‘ ہے اور اللہ کی تخلیق سے مشابہت اسی وقت ہوسکتی ہے جب کوئی شخص اپنے تصور وتخیل سے اور اپنے ذہن سے ہاتھ کے ذریعے کوئی صورت بنائے۔ حالانکہ کیمرے کی تصویر میں تخیل کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ کیمرے کی تصویر میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی ایک مخلوق پہلے سے موجود ہے، اس مخلوق کا عکس لے کر محفوظ کرلیاجاتا ہے، لہٰذا یہاں مشابہت بہ خلق اللہ نہیں پائی جاتی بلکہ یہ حَبْس الظل ہے جو ناجائز نہیں ۔ مصراور بلادِ عرب کے بہت سے علما نے اس بارے میں ان کی تائید بھی کی ہے، لیکن علما کی اکثریت نے اس زمانے میں بھی اور بعد میں بھی، خصوصاً ہند وپاک کے علما نے ان کے استدلال کو قبول نہیں کیا ہے اور ان کا یہی موقف ہے کہ مشابہت بہ خلق اللہ ہر صورت میں متحقق ہوجاتی ہے، چاہے تصویر کیمرے سے بنی ہویا ہاتھ سے۔ لہٰذا جمہور علما کے نزدیک واضح یہی ہے کہ کیمرے کی تصویر کا وہی حکم ہے جو ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر کا ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کرنا ضرور ی ہے، البتہ اس اختلاف سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہ مسئلہ دووجہ سے مجتہدفیہ معاملہ بن گیا ہے ۔ ایک توامام مالک کا اختلاف ہے، دوسرے علامہ بخیط کا فتویٰ موجود ہے اگرچہ وہ فتویٰ ہمارے نزدیک درست نہیں ۔ لیکن بہر حال ایک جدیدشے کے بارے میں ایک متورّع عالم کا قول موجود ہے، اس لیے یہ مسئلہ مجتہدفیہ بن گیا۔ (درسِ ترمذی : ۵/ ۳۵۰) نیز کیمرے کی تصویر اگر صرف جسم کے اوپرکے نصف کی ہو جس میں پیٹ موجود نہ ہو تو مسئلہ میں مزید تحفیف ہوجائے گی، کیونکہ یہ حنابلہ کے یہاں جائز ہے یا بعض شوافع و احناف کے نزدیک بھی ’’وإنِ قطع منہ ما لا یبقی الحیوان بعد ذھابہ کصدرہ وبطنہ لم یدخل تحت النھي‘‘ ( المغنی : ۷/ ۷)
Flag Counter