معاملہ ہے مثلاً درخت یا کشتی وغیرہ تو یہ جائز ہے۔ اور یہی حکم کٹے ہوئے اعضا کی تصویر ہے جبکہ اس کا پیٹ کٹا ہوا ہو۔‘‘ وإن قطع منہ ما لا یبقی الحیوان بعد ذھابہ کصدرہ أو بطنہ أو جعل لہٗ رأس منفصل عن بدنہ لم یدخل تحت النھي لأن الصورۃ لا تبقی بعد ذھابہ فہو کقطع الرأس۔ وإن کان الذاھب یبقی الحیوان بعدہ کالعین والید والرجل فھو صورۃ داخلۃ تحت النھي (المغني لابن قدامۃ الحنبلي:۷/۷ ) ’’اگرتصویر سے ان اعضا کو کاٹ دیا جائے مثلاً سینہ، پیٹ جن کے کٹنے کے بعد زندگی باقی نہیں رہتی یا اس کے بدن کو سر سے جدا کردیا جائے، تواس وقت یہ تصویر ممانعت میں داخل نہ ہوگی کیونکہ سرکٹنے کی طرح ان کے کٹنے کے بعدبھی صورت باقی نہیں رہتی۔ البتہ اگر ایسا عضو کاٹا جائے جس کے بعد زندگی برقرار رہتی ہے مثلاً آنکھ، ہاتھ او رپاؤں وغیرہ تو ایسی تصویر ممانعت میں داخل ہے۔‘‘ أو ممحوۃ عضو ألزم تعمیم بعد تخصیص، وھل مثل ذلک ما لو کانت مشقوبۃ البطن مثلاً الظاھر أنہ لوکان الثغب کبیرًا یظھر بہٖ نقصھا فنعم، وإلا فلا وھذا مذھب الشافعي، اختلفوا فیما إذا کان المتطوع غیر الرأس وقد بقي الرأس والراجح عندھم في ھذہ الحالۃ التحریم (الشافي: ۴/۱۸،زکریا:۲، الموسوعۃ الفقھیۃ ۱۲/۱۱۰) ’’ یا تصویر کا کوئی عضو مٹا ہو تو تخصیص کے بعد عموم لازم آئے گا۔ اور کیا جس کا پیٹ چاک ہوا ہو، اس کا بھی حکم ایسا ہی ہوگا؟ تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اگر گھاؤ بڑا ہے جس سے شخصیت میں نقص واضح ہورہا ہے تو اس صورت میں تصویر کا جواز ہے وگرنہ نہیں او ریہ امام شافعی کا قول ہے۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ متطوع اگر بغیرسر کے ہو، اور سر باقی رہ گیا ہو۔تو اس صورتحال میں راجح موقف حرمت کا ہی ہے۔‘‘ کیمرہ کی تصویر کیمرہ کی تصویر کے بارے میں اکثر فقہاے کرام تو یہ کہتے ہیں کہ آلے کے بدل جانے سے حکم نہیں بدلتا، یہ چیز پہلے ہاتھ سے بنائی جاتی تھی، اب مشین سے بننے لگی ہے، محض آلہ کی |