کہ بے سایہ تصویر جائز ہے ۔اور حنفیہ کا اُصول ہے کہ جہاں کوئی راوی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتویٰ دے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ حدیث یا تومؤول ہے یا منسوخ ۔ (حسامی: ص ۷۶) علاوہ ازیں تصویر کی حرمت پر بے شماراحادیث موجود ہیں اور سب مطلق ہیں ۔ ناقص تصویر کا حکم 1. سرکٹی تصویر اگرچہ ہاتھ پاؤں وغیرہ موجود ہوں تو باتفاقِ ائمہ جائز ہے۔ 2. سرتو باقی ہو، لیکن کوئی ایسا عضو کٹا ہوجس پر زندگی کا مدار ہوتا ہے ، مثلاً پیٹ، سینہ وغیرہ تو ایسی تصویر میں علما کا اختلاف ہے۔ مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک جائز ہے اور شامی میں بھی یہی حکم مذکور ہے جبکہ شوافع کے راجح قول میں ناجائز ہے اور جواز کا قول مرجوح ہے ۔ 3. ایسا عضو کٹا ہوجس پر زندگی کا مدارنہ ہو مثلاً ہاتھ، پاؤں ، ناک، کان تو ایسی تصویر بالاتفاق ناجائز ہے : والحاصل أنہ یحرم تصویر حیوان عاقل وغیرہ إذا کان کامل الأعضاء إذا کان یدوم إجماعًا وکذا إن لم یدم علی الراجح کتصویرہ من نحو قشر بطیخ ویحرم النظر إلیہ إذا النظر المحرم حرام بخلاف ناقص عضو فیباح النظر إلیہ وغیر ذي ظل کالمنقوش في حائط أو ورق فیکرہ إن کان غیرممتھن وإلا فخلاف الأولیٰ کالمنقوش في الفرش۔ أما تصویر غیر الحیوان کشجرۃ وسفینۃ فجائز۔ قولہ: بخلاف ناقص عضو مثلہ ما إذا کان مخروق البطن ( الدسوقي:۲/۳۳۸) ’’خلاصہ یہ کہ عاقل حیوان وغیرہ کی تصویر حرام ہے جب تصویر میں اس کے تمام اعضا مکمل ہوں ۔ جب اس میں استقرار ودوام ہو تب تو ایسی تصویر بالاجماع حرام ہے، اور اگر اس میں دوام نہ ہو مثلاً تربوز کے چھلکے پر تصویر کشی تو راجح قول کے مطابق حرام ہے ۔ اورایسی تصویر کو دیکھنا بھی ناجائز ہے کیونکہ حرام شے کو دیکھنا بھی حرام ہوتا ہے۔ برخلاف ایسی تصویر کے جس کے اعضا ناقص / کٹے ہوں یا ایسی تصویر جو بغیر سائے کے ہو مثلاً دیوار یا کاغذ وغیرہ پر بنائی گئی تصویر تو اس کو دیکھنا حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے بشرطیکہ وہ محل اہانت میں نہ ہو۔ اور اگر وہ محل اہانت میں ہو مثلاً فرش پر تصویر تو پھر اس کو دیکھنا جائز ہے۔ جہاں تک غیرجاندار کی تصویر کا |