Maktaba Wahhabi

74 - 127
غامدی صاحب کے شاگرد جناب محمد رفیع مفتی اپنی کتاب ’تصویر کا مسئلہ ‘میں لکھتے ہیں : ’’تصویر کے بارے میں قران کی آیات اور احادیث کی رہنمائی سے یہ بات تو کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مذہب کا تصویر پر اعتراض صرف اور صرف کسی دینی یا اخلاقی خرابی ہی کی بنا پر ہے، ورنہ وہ ان چیزوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہتا۔ چنانچہ نقاشی، مصوری، فوٹوگرافی، مجسمہ سازی میں سے جو چیزبھی کسی دینی یا اخلاقی خرابی کا باعث بنے گی، وہ اس خاص حوالے سے ممنوع قرار پائے گی۔‘‘ (ص۹۴) چنانچہ محمدرفیع مفتی صاحب کے بقول کسی خاص علاقے اور کسی خاص دور میں یہ مسئلہ صرف اس وقت پیدا ہوسکتا ہے جب مجسمہ سازی شرک کی طرف رغبت کا ذریعہ بننے لگے تو اس وقت تصویر حرام ہوگی۔ اُنہوں نے تصویر سے پیدا ہونے والے شرک کو کسی خاص علاقے میں کسی خاص دور کا مسئلہ قرار دیا ہے جو ان کی بنیادی غلطی ہے۔دراصل تصویر کی بقا ہمیشہ ہی سے ایک خطرہ رہی ہے۔ جب پہلے پہل نیک لوگوں کی تصویریں بنائی گئی تھیں توان کو اس وقت قطعاً یہ خیال نہ تھا کہ یہ بعد میں معبود بنا لیے جائیں گے،معبود بنا نے والے تو بعد میں آتے ہیں ۔ آج ذرامحمد علی جناح یا علامہ اقبال کی تصویر کونیچے گرا کر تو دیکھئے یا کسی بڑے سیاسی لیڈر یاسرکاری عہدے دارہی کی تصویر کو نیچے گرا دیجئے تو ایک طوفان برپا ہوجائے گا۔ چنانچہ کسی تصویر کا اِکرام کرنے والے تو بعد میں آتے ہیں ، لہٰذا تصویر کی حرمت کی وجہ ہمیشہ سے موجود ہے۔ میری نظر میں شرک اور فحاشی کے علاوہ بھی تصویر کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں وہ حرام ہو گی مثلاً ان کا دکھاواہورہا ہویاان کا غیرمعمولی اِکرام ہو۔ شرک اور فحاشی کے علاوہ تصویر میں یہ دوچیزیں بھی اگر پائی جائیں تو ایسی تصویریں حرام ہیں ۔ میڈیا کی اہمیت فی الوقت ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی طرح خدشۂ شرک اور بچیوں کی تربیت وغیرہ کا تقابلی مسئلہ درپیش ہے۔ اس دور میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ (میڈیا)اپنے مقاصد کو پھیلانے کا بہت بڑے ذریعے بن گئے ہیں ۔آج الیکٹرانک میڈیا تو اتنا تیز جا رہا ہے کہ ہمارا پرنٹ میڈیا بہت پیچھے
Flag Counter